قرآن کریم > هود >surah 11 ayat 78
وَجَاءهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُواْ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ قَالَ يَا قَوْمِ هَؤُلاء بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُواْ اللَّهَ وَلاَ تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ
اور اُن کی قوم کے لوگ اُن کے پاس دوڑتے ہوئے آئے، اور اس سے پہلے وہ برے کام کیا ہی کرتے تھے۔ لوط نے کہا : ’’ اے میری قوم کے لوگو ! یہ میری بیٹیاں موجود ہیں ، یہ تمہارے لئے کہیں زیادہ پاکیزہ ہیں ، اس لئے اﷲ سے ڈرو، اور میرے مہمانوں کے معاملے میں مجھے رُسوا نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی ایک بھلا آدمی نہیں ہے ؟ ‘‘
آیت ۷۸: وَجَآءَہ قَوْمُہ یُہْرَعُوْنَ اِلَیْہِ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ: «اور آئے آپ کی قوم کے لوگ دیوانہ وار دوڑتے ہوئے آپ (کے گھر) کی طرف، اور وہ پہلے سے ہی گندے کاموں میں ملوث تھے۔ »
قَالَ یٰــقَوْمِ ہٰٓؤُلَآءِ بَنَاتِیْ ہُنَّ اَطْہَرُ لَـکُمْ: «لوط نے فرمایا : اے میری قوم کے لوگو! یہ میری بیٹیاں (موجود) ہیں، وہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں»
مفسرین نے اس کے ایک معنی تو یہ مراد لیے ہیں کہ تمہارے گھروں میں تمہاری بیویاں موجود ہیں جو میری بیٹیوں ہی کی مانند ہیں، کیونکہ نبی اپنی پوری قوم کے لیے باپ کی طرح ہوتا ہے۔ جیسے سورۃ الاحزاب (آیت: 6) میں حضور کے بارے میں فرمایا گیا ہے: وَاَزْوَاجُہ اُمَّہٰتُہُمْ. کہ آپ کی تمام ازواجِ مطہرات مؤمنین کی مائیں ہیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ حضرت لوط نے اپنی بیٹیوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ میری بیٹیاں ہیں، اُن سے جائز اور پاکیزہ طریقے سے نکاح کر لو، میں اس کے لیے تیار ہوں، لیکن میرے ان مہمانوں کے بارے میں مجھے رسوا نہ کرو۔
فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَلاَ تُخْزُوْنِ فِیْ ضَیْفِیْ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ: «تو اللہ کا خوف کرو اور مجھے میرے مہمانوں کے معاملہ میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی ایک آدمی بھی نیک چلن نہیں ہے؟»
کیا تم لوگوں میں کوئی ایک بھی شریف النفس انسان نہیں ہے جو میرا ساتھ دے اور ان سب لوگوں کو بد اخلاقی اور بے حیائی سے روکے۔