فہرست مضامین > طلاق >رجعى طلاق دے كر عدت كے ايام ميں رجوع كى اجازت
رجعى طلاق دے كر عدت كے ايام ميں رجوع كى اجازت
پارہ
سورۃ
آیت
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
آیت 228: وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰـثَۃَ قُرُوْءٍ : «اور جن عورتوں کو طلاق دے دی جائے اُن پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔ »
طلاق کے بعد عورت کے لیے تین ماہ کی عدت ہے۔ اس عدت میں شوہر چاہے تو رجوع کر سکتا ہے‘ اگر اس نے ایک یا دو طلاقیں دی ہوں۔ البتہ تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق نہیں ہے۔ طلاقِ رجعی کے بعد ابھی اگر عدت ختم ہو جائے تو اب شوہر کا رجوع کا حق ختم ہو جائے گا اور عورت آزاد ہو گی۔ لیکن اس مدت کے اندر وہ دوسری شادی نہیں کر سکتی۔
وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ اَنْ یَّــکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْ اَرْحَامِہِنَّ : «اور اُن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے ان کے ارحام میں جو کچھ پیدا کر دیا ہو وہ اسے چھپائیں»
اِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ : «اگر وہ فی الواقع اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتی ہیں۔ »
تین حیض کی مدت اسی لیے مقرر کی گئی ہے کہ معلوم ہو جائے کہ عورت حاملہ ہے یا نہیں۔ اگر عورت حاملہ ہو لیکن وہ اپنا حمل چھپا رہی ہو تاکہ اس کے پیٹ میں پلنے والا اس کا بچہ اس کے پاس ہی رہے‘ تو یہ اس کے لیے جائز نہیں ہے۔
وَبُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلاَحًا : «اور ان کے شوہر اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ انہیں لوٹا لیں اس عدت کے دوران میں اگر وہ واقعۃً اصلاح چاہتے ہوں۔ »
اسے رجعت کہتے ہیں ۔ شوہروں کو حق حاصل ہے کہ وہ عدت کے اندر اندر رجوع کر سکتے ہیں‘ لیکن یہ حق تیسری طلاق کے بعد حاصل نہیں رہتا۔ پہلی یا دوسری طلاق کے بعد عدت ختم ہونے سے پہلے شوہر کو اس کا اختیار حاصل ہے کہ وہ رجوع کر لے۔ اس پر بیوی کو انکار کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ تم تو مجھے طلاق دے چکے ہو‘ اب میں تمہاری بات ماننے کو تیار نہیں ہوں۔
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ : «اور عورتوں کے لیے اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان پر ذمہ داریاں ہیں دستور کے مطابق۔ »
یعنی ان کے لیے جو حقوق ہیں وہ ان کی ذمہ داریوں ّکی مناسبت سے ہیں۔
وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ : «اور َمردوں کے لیے ان پر ایک درجہ فوقیت کاہے۔ »
وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ : «اور اللہ تعالیٰ زبردست ہے‘ حکمت والاہے۔ »
اس زمانے میں اس آیت کی بہت غلط تعبیر بھی کی گئی ہے اور اس سے مساواتِ مرد و زن کا فلسفہ ثابت کیا گیا ہے۔ چنانچہ بعض مترجمین نے وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ : کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ «عورتوں کے حقوق بھی مردوں پر ویسے ہی ہیں جیسے َمردوں کے اُن پر حقوق ہیں»۔ یہ ترجمہ درست نہیں ہے ‘ اس لیے کہ اسلامی شریعت میں َمرد اور عورت کے درمیان یعنی شوہر اور بیوی کے درمیان مساوات نہیں ہے۔ اس آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے عربی میں «لِ» اور «عَلٰی» کا استعمال معلوم ہونا چاہیے ۔ «لِ» کسی کے حق کے لیے اور «عَلٰی» کسی کی ذمہ داری کے لیے آتا ہے۔ چنانچہ اس ٹکڑے کا ترجمہ اس طرح ہو گا: لَھُنَّ «ان کے لیے حقوق ہیں»۔ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ «جیسی کہ ان پر ذمہ داریاں ہیں»۔ اللہ تعالیٰ نے جیسی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے ویسے حقوق اس کو دیے ہیں اور جیسی ذمہ داری عورت پر ڈالی ہے اُس کی مناسبت سے اس کو بھی حقوق دے دیے ہیں۔ اور اس بات کو کھول دیا کہ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ : یعنی َمردوں کو اُن پر ایک درجہ فوقیت کا حاصل ہے۔ اب مساوات کیونکر ہو سکتی ہے؟ آخر میں فرمایا:
وَاللّٰہُ عَزِیْــزٌ حَکِیْمٌ : «اور اللہ تعالیٰ زبردست ہے‘ حکمت والا ہے۔ »
خواہ تمہیں یہ بات پسند ہو خواہ نا پسند ہو‘ یہ اُس کا حکم ہے۔ وہ عزیز ہے‘ زبردست ہے‘ جو چاہے حکم دے۔ اور حکیم ہے‘ حکمت والا ہے‘ اس کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہے۔
اس آیت میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس پر قدرے تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔ دیکھئے‘ انسانی تمدن کا اہم ترین اور بنیادی ترین مسئلہ کیا ہے؟ ایک ہے انسانی زندگی کا مسئلہ۔ انسانی زندگی کا سب سے پہلا مسئلہ تو وہی ہے جو حیوانی زندگی کا بھی ہے‘ یعنی اپنی مادی ضروریات۔ ہر حیوان کی طرح انسان کے ساتھ بھی پیٹ لگا ہوا ہے جو کھانے کو مانگتا ہے۔ لیکن اس کے بعد جب دو انسان ملتے ہیں اور اس سے تمدن کا آغاز ہوتا ہے تو اس کا سب سے بڑا مسئلہ انسان کی شہوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دو جنسیں بنا دی ہیں اور ان دونوں کے مابین تعلق سے نسل آگے چلتی ہے۔ اب اس معاملے کو کیسے منظم کیا جائے‘ اس کی کیا حدود و قیود ہوں؟ یہ جذبہ واقعۃً بہت زور آور (potent) ہے۔ اس کے بارے میں فرائیڈ نے جو کچھ کہا ہے وہ بالکل بے بنیاد نہیں ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ اس نے ذرا زیادہ مرچ مسالا لگا دیا ہے‘ ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کا جنسی جذبہ نہایت قوی اور زورآور جذبہ ہے۔ اور جو شے جتنی قوی ہو اسے حدود میں رکھنے کے لیے اس پر اسی قدر زیادہ قدغنیں عائد کرنی پڑتی ہیں۔ کوئی گھوڑا جتنا منہ زور ہو اتنا ہی اسے لگام دینا آسان نہیں ہوتا‘ اس کے لیے پھر مشقت کرنی پڑتی ہے۔ چنانچہ اگر اس جنسی جذبے کو بے لگام چھوڑ دیا جاتا تو تمدن میں فساد ہو جاتا ۔ لہٰذا اس کے لیے شادی کا معاملہ رکھا گیا کہ ایک عورت کا ایک مرد کے ساتھ رشتہ قائم ہو جائے‘ سب کو معلوم ہو کہ یہ اس کی بیوی ہے یہ اس کا شوہر ہے‘ تاکہ اس طرح نسب کا معاملہ بھی چلے اور ایک خاندانی ادارہ وجود میں آئے۔ ورنہ آزاد شہوت رانی (free sex) سے تو خاندانی ادارہ وجود میں آ ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ نکاح کے ذریعے ازدواجی بندھن کا طریقہ اللہ تعالی نے انسانوں کو سکھایا اور اس طرح خاندانی ادارہ وجود میں آیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس ادارے میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں؟ اس نظریے سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہے۔ اس لیے کہ سیدھی سی بات ہے کہ کسی بھی ادارے کے دو برابر کے سربراہ نہیں ہو سکتے۔ اگر آپ کسی محکمے کے دو ڈائریکٹر بنا دیں تو وہ ادارہ تباہ ہو جائے گا۔ اوپر مینیجنگ ڈائریکٹر ایک ہی ہو گا‘ اس کے نیچے آپ دس ڈائریکٹر بھی بنا دیں تو کوئی حرج نہیں۔ کسی ادار ے کا جنرل مینیجر ایک ہی ہو گا‘ اس کے ماتحت آپ ہر شعبے کا ایک مینیجر بنا دیجیے۔ کسی بھی ادارے میں اگر نظم قائم کرنا ہے تو اس کا چوٹی (top) کا سربراہ ایک ہی ہونا چاہیے۔ لہٰذا جب ایک مرد اور ایک عورت سے ایک خاندانی ادارہ وجود میں آئے تو اس کا سربراہ کون ہو گا ---- مرد یا عورت؟ مرد اور عورت انسان ہونے کے ناطے بالکل برابر ہیں‘ ایک ہی باپ کے نطفے سے بیٹا بھی ہے اور بیٹی بھی۔ ایک ہی ماں کے رحم میں بہن نے بھی پرورش پائی ہے اور بھائی نے بھی۔ لہٰذا اس اعتبار سے شرفِ انسانیت میں ‘ نوعِ انسانیت کے فرد کی حیثیت سے دونوں برابر ہیں۔ لیکن جب ایک مرد اور ایک عورت مل کر خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں تو اب یہ برابر نہیں رہے۔ جیسے انسان سب برابر ہیں‘ لیکن ایک دفتر میں چپڑاسی اور افسر برابر نہیں ہیں‘ ان کے الگ الگ اختیارات اور فرائض ہیں۔
قرآن حکیم میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ جو احکام دیے گئے ہیں وہ خاندانی نظام اور عائلی معاملات ہی سے متعلق ہیں۔ اس لیے کہ انسانی تمدن کی جڑ بنیاد اوریہی ہے۔ یہاںسے خاندان بنتا ہے اور خاندانوں کے اجتماع کا نام معاشرہ ہے۔ پاکستانی معاشرے کی مثال لے لیجیے۔ اگر ہماری آبادی اِس وقت چودہ کروڑ ہے اور آپ ایک خاندان کے سات افراد شمار کر لیں تو ہمارا معاشرہ دو کروڑ خاندانوں پر مشتمل ہے۔ خاندان کا ادارہ مستحکم ہو گا تو معاشرہ مستحکم ہو جائے گا۔ خاندان کے ادارے میں صلاح اور فلاح ہو گی تو معاشرے میں بھی صلاح و فلاح نظر آئے گی۔ اگر خاندان کے ادارے میں فساد‘ بے چینی‘ ظلم اور ناانصافی ہو گی‘ میاں اور بیوی میں جھگڑے ہو رہے ہوں گے تو پھر وہاں اولاد کی تربیت صحیح نہیں ہو سکتی‘ ان کی تربیت میں یہ منفی چیزیں شامل ہو جائیں گی اور اسی کا عکس پورے معاشرے پر پڑے گا۔ چنانچہ خاندانی ادارے کی اصلاح اور اس کے استحکام کے لیے قرآن مجید میں بڑی تفصیل سے احکام دیے گئے ہیں‘ جنہیں عائلی قوانین کہا جاتا ہے۔
اس ضمن میں طلاق ایک اہم معاملہ ہے۔ اس میں مرد اور عورت کو برابر کا اختیار نہیں دیا گیا۔ جہاں تک شادی کا تعلق ہے اس میں عورت کی رضامندی ضروری ہے‘ اسے شادی سے انکار کرنے کا حق حاصل ہے‘ اس پر جبر نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ایک مرتبہ جب وہ نکاح میں آ گئی ہے تو اب شوہر کا پلڑا بھاری ہے‘وہ اسے طلاق دے سکتا ہے۔ اگر ظلم کے ساتھ دے گا تو اللہ کے ہاں جواب دہی کرنی پڑے گی اور پکڑ ہوجائے گی۔ لیکن بہرحال اسے اختیار حاصل ہے۔ عورت خود طلاق نہیں دے سکتی‘ البتہ طلاق حاصل کر سکتی ہے‘ جسے ہم «خلع» کہتے ہیں۔ وہ عدالت کے ذریعے سے یا خاندان کے بڑوں کے ذریعے سے خلع حاصل کر سکتی ہے‘ لیکن اسے مرد کی طرح طلاق دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح اگر مرد نے ایک یا دو طلاقیں دے دیں اور ابھی عدت پوری نہیں ہوئی تو اسے رجوع کا حق حاصل ہے۔ اس پر عورت انکار نہیں کر سکتی۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جو موجودہ زمانے میں خواتین کو اچھی نہیں لگتیں۔ اس لیے کہ آج کی دنیا میں مساواتِ مرد و زن کا فلسفہ شیطان کا سب سے بڑا فلسفہ اور معاشرے میں فتنہ و فساد اور گندگی پیدا کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اور اب ہمارے ایشیائی ممالک خاص طور پر مسلمان ممالک میں خاندانی نظام کی جو بچی کھچی شکل باقی رہ گئی ہے اور جو کچھ رہی سہی اقدار موجود ہیں انہیں تباہ و برباد کرنے کی سرتوڑ کوششیں ہو رہی ہیں۔ قاہرہ کانفرنس اور بیجنگ کانفرنس کا مقصد یہی ہے کہ ایشیا کا مشرق اور مغرب دونوں طرف سے گھیراؤ کیا جائے تاکہ یہاں کی عورت کو آزادی دلائی جائے۔ مرد و عورت کی مساوات اور عورتوں کی آزادی (emancipation) کے نام پر ہمارے خاندانی نظام کو اسی طرح برباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس طرح ان کے ہاں برباد ہو چکا ہے۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنے سالِ نو کے پیغام میں کہا تھا کہ جلد ہی ہماری قوم کی اکثریت «حرام زادوں» (born without any wedlock) پر مشتمل ہو گی۔ وہاں اب محض «one parent family» رہ گئی ہے۔ ماں کی حیثیت باپ کی بھی ہے اور ماں کی بھی۔ وہاں کے بچے اپنے باپ کو جانتے ہی نہیں۔ اب وہاں ایک مہم زور و شور سے اٹھ رہی ہے کہ ہر انسان کا حق ہے کہ اسے معلوم ہو کہ اس کا باپ کون ہے۔ یہ عظیم تباہی ہے جو مغربی معاشرے پر آ چکی ہے اور ہمارے ہاں بھی لوگ اس معاشرے کی نقالی اختیار کر رہے ہیں اور یہ نظریۂ مساواتِ مرد و زن بہت ہی تابناک اور خوشنما الفاظ کے ساتھ سامنے آ رہا ہے۔
البتہ اس معاملے کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے ۔ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیے ہیں بد قسمتی سے ہم مسلمانوں نے وہ بھی ان کو نہیں دیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں پر ابھی تک ہمارا ہندوانہ پس منظر ّمسلط ہے اور ہندوؤں کے معاشرے میں عورت کی قطعاً کوئی حیثیت ہی نہیں۔ وراثت کا حق تو بہت دُور کی بات ہے‘ اسے تو اپنے شوہر کی موت کے بعد زندہ رہنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ اسے تو شوہر کی چتا کے ساتھ ہی جل کر ستی َہو جانا چاہیے۔ گویا اس کا تو کوئی قانونی وجود (legal entity) ہے ہی نہیں۔ ہمارے آباء و اَجداد مسلمان تو ہو گئے تھے‘ لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کی تربیت نہیں ہو سکی تھی‘ لہٰذا ہمارے ذہنوں پر وہی ہندوانہ تصورات ّمسلط ہیں کہ عورت تو مرد کے پاؤں کی جوتی کی طرح ہے۔ یہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں کہ ان کے جائز حقوق بھی ان کو نہیں دیتے‘ اس کے نتیجے میں ہم اپنے اوپر ہونے والی مغربی یلغار کو مؤثر ّکرنے میں خود مدد دے رہے ہیں۔ اگر ہم اپنی خواتین کو وہ حقوق نہیں دیں گے جو اللہ اور اس کے رسول نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ آزادیٔ نسواں‘ حقوقِ نسواں اور مساواتِ مرد و زن جیسے خوش نما عنوانات سے جو دعوت اٹھی ہے وہ لازماً انہیں کھینچ کر لے جائے گی۔ لہٰذا اس طرف بھی دھیان رکھیے۔ ہمارے ہاں دین دار گھرانوں میں خاص طور پر عورتوں کے حقوق نظر انداز ہوتے ہیں۔ اس کو سمجھنا چاہیے کہ اسلام میں عورتوں کے کیا حقوق ہیں اور ان کی کس قدر دل جوئی کرنی چاہیے۔ رسول اللہ نے فرمایا ہے : ((خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ)) «تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھے ہوں۔ اور جان لو کہ میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے اچھا ہوں»۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک ہو‘ ان کی دل جوئی ہو‘ ان کے احساسات کا بھی پاس کیا جائے۔ البتہ جہاں دین اور شریعت کا معاملہ آ جائے وہاں کسی لچک کی گنجائش نہ ہو‘ وہاں آپ شمشیر برہنہ ہو جائیں اور صاف صاف کہہ دیں کہ یہ معاملہ دین کا ہے‘ اس میں مَیں تمہاری کوئی رعایت نہیں کرسکتا ‘ہاں اپنے معاملات کے اندر َمیں ضرور نرمی کروں گا۔
اس ساری بحث کو ذہن میں رکھیے۔ ہمارے جدید دانشور اس آیت کے درمیانی الفاظ کو تو لے لیتے ہیں : وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ . اور اس سے مساواتِ مرد و زن کا مفہوم نکالنے کی کوشش کرتے ہیں‘ لیکن ان سے پہلے والے الفاظ : وَبُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ . اوربعد والے الفاظ: وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ . سے صرفِ نظر کر لیتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل بالکل غلط ہے۔ ایک مرد اور ایک عورت سے جو خاندانی ادارہ وجود میں آتا ہے‘ اسلام اس کا سربراہ مرد کو ٹھہراتا ہے۔ یہ فلسفہ زیادہ وضاحت سے سورۃ النساء میں بیان ہو گا جہاں الفاظ آئے ہیں: اَلرِّجَالُ قَوّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ… : (آیت: 34)۔ یہاں اس کی تمہید آ گئی ہے تاکہ یہ کڑوی گولی خواتین کے حلق سے ذرا نیچے اترنی شروع ہو جائے۔ اس آیت کا ترجمہ ایک بار پھر دیکھ لیجیے: «اور ان کے شوہر اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ انہیں لوٹا لیںاس عدت کے دوران میں اگر وہ واقعۃً اصلاح چاہتے ہوں۔ اور عورتوں کے لیے اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان پر ذمہ داریاں ہیں دستور کے مطابق۔ اور مردوں کے لیے ان پر ایک درجہ فوقیت کا ہے۔ «اور اللہ زبردست ہے‘ حکیم ہے»۔ اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داریاں عورت کے حوالے کی ہیں‘ جس طرح کے اس پر فرائض عاید کیے ہیں ویسے ہی اس کو حقوق بھی عطا کیے ہیں۔ یہ دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ حقوق و فرائض باہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اگر آپ کی ذمہ داری زیادہ ہے تو حقوق اور اختیارات بھی زیادہ ہوں گے۔ اگر آپ پر ذمہ داری بہت زیادہ ڈال دی جائے لیکن حقوق اور اختیارات اس کی مناسبت سے نہ ہوں تو آپ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر سکتے۔ جہاں ذمہ داری کم ہو گی وہاں حقوق اور اختیارات بھی کم ہوں گے۔ یہ دونوں چیزیں متناسب (proportionate) چلتی ہیں۔
اب ہم اگلی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں:
اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو وہ تین مرتبہ حیض آنے تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں، اور اگر وہ اﷲ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کیلئے حلال نہیں ہے کہ اﷲ نے ان کے رحم میں جو کچھ (حمل یا حیض) پیدا کیا ہے اسے چھپائیں ۔ اور اس مدت میں اگر ان کے شوہر حالات بہتر بنانا چاہیں تو ان کو حق ہے کہ وہ ان عورتوں کو (اپنی زوجیت میں ) واپس لے لیں ۔ اور ان عورتوں کو معروف طریقے کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے (مردوں کو) ان پر حاصل ہیں ۔ ہاں مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت ہے اور اﷲ غالب اور حکمت والا ہے