قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 47
لَوْ خَرَجُواْ فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلاَّ خَبَالاً ولأَوْضَعُواْ خِلاَلَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ
اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوتے تو سوائے فساد پھیلانے کے تمہارے درمیان کوئی اور اضافہ نہ کرتے، اور تمہارے لئے فتنہ پیدا کرنے کی کوشش میں تمہاری صفوں کے درمیان دوڑے دوڑے پھرتے۔ اور خود تمہارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو اُن کے مطلب کی باتیں خوب سنتے ہیں ، اوراﷲ ان ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے
آیت 47: لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ اِلاَّ خَبَالاً: ‘‘اگر یہ نکلتے (اے مسلمانو!) تمہارے ساتھ تو ہر گز اضافہ نہ کرتے تمہارے لیے مگر خرابی ہی کا‘‘
اُن کے دلوں میں چونکہ روگ تھا‘ اس لیے لشکر کے ساتھ جا کر بھی یہ لوگ فتنے ہی اٹھاتے‘ لڑائی جھگڑا کرانے کی کوشش کرتے اور سازشیں کرتے۔ لہٰذا ان کے بیٹھے رہنے اور سفر میں آپ لوگوں کے ساتھ نہ جا نے میں بھی بہتری پوشیدہ تھی۔ گویا بندۂ مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر طرح خیر ہی خیر ہے‘ جبکہ منافق کے لیے ہر حالت میں شر ہی شر ہے۔
وَّلَا اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ: ‘‘اور گھوڑے دوڑاتے تمہارے مابین فتنہ پیدا کرنے کے لیے۔‘‘
وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَہُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ: ‘‘اور تمہارے اندر ان کے جاسوس بھی ہیں۔ اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے۔‘‘
اس کا دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ ‘‘تمہارے درمیان ان کی باتیں سننے والے بھی ہیں‘‘۔ یعنی تمہارے درمیان ایسے نیک دل اور سادہ لوح مسلمان بھی ہیں جو ان منافقین کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کے اِن منافقین کے ساتھ دوستانہ مراسم بھی ہیں اور وہ ان کی باتوں کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ چنانچہ اگر یہ منافقین تمہارے ساتھ لشکر میں موجود ہوتے اور کوئی فتنہ اٹھاتے تو عین ممکن تھا کہ تمہارے وہ ساتھی اپنی سادہ لوحی کے باعث اُن کے اٹھائے ہوئے فتنے کا شکار ہو جاتے۔