قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 29
قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
وہ اہلِ کتاب جو نہ اﷲ پر ایمان رکھتے ہیں ، نہ یومِ آخرت پر، اور جو اﷲ اور اُس کے رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے، اور نہ دینِ حق کو اپنا دین مانتے ہیں ، اُن سے جنگ کرو، یہاں تک کہ وہ خوار ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ اداکریں
آیت 29: قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ وَلاَ یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ: ‘‘جنگ کرو تم ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں‘ نہ یومِ آخرت پر اور نہ حرام ٹھہراتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو‘ اور نہ قبول کرتے ہیں دین حق کی تابعداری کو‘ ان لوگوں میں سے جن کو کتاب دی گئی تھی‘ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ پیش کریں اور چھوٹے (تابع) بن کر رہیں۔‘‘
اس آیت میں بھی دین کا بہت اہم فلسفہ بیان ہوا ہے۔ اس حکم میں مشرکین عرب اور نسل انسانی کے باقی لوگوں کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ سورۃ التوبہ کی آیت 5 کی رو سے مشرکین عرب کو جو مہلت یا امان دی گئی تھی اس مدت کے گزرنے کے بعد ان کے لیے تو کوئی اور راستہ (option) اس کے علاوہ نہیں تھا کہ یا وہ ایمان لے آئیں یا انہیں قتل کر دیا جائے گا‘ یا وہ جزیرہ نمائے عرب چھوڑ کر چلے جائیں۔ اُن کا معاملہ تو اس لیے خصوصی تھا کہ محمد رسول اللہ نے اللہ کے رسول کی حیثیت سے اُن پر آخری درجہ میں اتمامِ حجت کر دیا تھا‘ اور آپ کا انکار کر کے وہ لوگ عذابِ استیصال کے حق دار ہو چکے تھے۔ مگر یہود و نصاریٰ اور باقی پوری نوعِ انسانی کے لیے اس ضمن میں قانون مختلف ہے۔ جزیرہ نمائے عرب سے باہر کے لوگوں کے لیے اور قیامت تک تمام دنیا کے انسانوں کے لیے وہ چیلنج نہیں کہ ایمان لاؤ ورنہ قتل کر دیے جاؤ گے۔ کیونکہ اس کے بعد اب حضور بحیثیت رسول معنوی طور پر تو موجود ہیں مگر بنفسِ نفیس موجود نہیں‘ کہ براہِ راست کوئی قوم آپ کی دعوت کو رد کر کے عذابِ استیصال کی مستحق ہو جائے۔ چنانچہ باقی تمام نوعِ انسانی کے افراد کا معاملہ یہ ہے کہ ان سے قتال کیا جائے گا‘ یہاں تک کہ وہ دین کی بالادستی کو بحیثیت ایک نظام کے قبول کر لیں‘ مگر انفرادی طور پر کسی کو قبولِ اسلام کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ہر کوئی اپنے مذہب پر کاربند رہتے ہوئے اسلامی ریاست کے ایک شہری کے طور پر رہ سکتا ہے‘ مگر ایسی صورتِ حال میں غیر مسلموں کو جزیہ دینا ہو گا۔ اسی فلسفے کے تحت خلافت راشدہ کے دور میں کسی بھی ملک پر لشکر کشی کرنے سے پہلے تین شرائط پیش کی جاتی تھیں۔ پہلی یہ کہ ایمان لے آؤ‘ ایسی صورت میں تم ہمارے برابر کے شہری ہو گے۔ اگر یہ قبول نہ ہو تو اللہ کے دین کی بالا دستی قبول کر کے اسلامی ریاست کے فرمانبردار شہری بن کر رہنا اور جزیہ دینا قبول کر لو۔ ایسی صورت میں تم لوگوں کو آزادی ہو گی کہ تم یہودی‘ عیسائی‘ مجوسی‘ ہندو وغیرہ جو چاہو بن کر رہو۔ لیکن اگر یہ بھی قابل قبول نہ ہو اور تم لو گ اس زمین پر باطل کا نظام قائم رکھنا چاہو تو پھر اس کا فیصلہ جنگ سے ہو گا۔