قرآن کریم > الـقـلـم >sorah 68 ayat 44
فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ
لہٰذا (اے پیغمبر !) جو لوگ اس کلام کو جھٹلارہے ہیں اُنہیں مجھ پر چھوڑ دو۔ ہم انہیں اس طرح دھیرے دھیرے (تباہی کی طرف) لے جائیں گے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا
آيت 44: فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ: «تو (اے نبى صلى الله عليه وسلم!) آپ چھوڑ ديجيے مجھے اور ان لوگوں كو جو اس كلام كى تكذيب كررهے هيں.»
جيسا كه قبل ازيں بھى ذكر هوچكا هے اس گروپ كى سورتوں ميں يه كلمه (ذَرْنِيْ، فَذَرْنِيْ) اور يه اسلوب بهت تكرار كے ساتھ آيا هے. اس ميں ايك طرف حضور صلى الله عليه وسلم كى دل جوئى كا پهلو هے تو دوسرى طرف آپ صلى الله عليه وسلم كے مخالفين كے ليے بهت بڑى وعيد هے، كه اے نبى صلى الله عليه وسلم! آپ ان لوگوں كى باتوں سے رنجيده نه هوں، ان كا معامله آپ مجھ پر چھوڑ ديجيے، ان سے ميں خود هى نمٹ لوں گا.
سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ: «هم انهيں رفته رفته وهاں سے لے آئيں گے جهاں سے انهيں علم تك نهيں هوگا.»
علماء كے هاں «استدراج» كا لفظ بطور اصطلاح استعمال هوتا هے. اس سے مراد ايسا عذاب هے جو الله تعالى كى ڈھيل سے ناجائز فائده اٹھانے كے باعث كسى قوم يا كسى فرد پر درجه بدرجه (درجه، تدريج اور استدراج كا ماده ايك هى هے) مسلط هو. مثلاً اگر كوئى شخص اپنى هٹ دھرمى كى وجه سے غلط راستے پر جارها هے تو الله تعالى اسے كچھ دير كے ليے ڈھيل ديتا هے، بلكه بعض اوقات اس راستے پر اسے طرح طرح كى كاميابيوں سے بھى نوازتا هے، تاكه اس كے اندر كى خباثت پورى طرح ظاهر هوجائے. جب وه شخص اپنى روش كو كامياب ديكھتا هے تو سركشى ميں مزيد ديده دليرى دكھاتا هے. يهاں تك كه اس كى مهلت كا وقت پورا هوجاتا هے اور پھر اچانك اسے عذاب كے شكنجے ميں كس ليا جاتا هے.
استدراج كى مثال كانٹے كے ذريعے مچھلى كے شكار كى سى هے. شكارى جب ديكھتا هے كه مچھلى نے كانٹا نگل ليا هے تو وه ڈور كو ڈھيلا چھوڑ ديتا هے اور پھر جب چاها هے ڈور كھينچ كر سے قابو كرليتا هے. لفظ استدراج كى وضاحت كرتے هوئے يهاں مجھے مولانا حسين احمد مدنى رحمه الله كا وه قول ياد آگيا هے جس ميں انهوں نے قيام پاكستان كے بارے ميں كها تھا كه يه استدراج بھى هوسكتا هے. مولانا صاحب رمضان هميشه سلهٹ ميں گزارتے تھے. 1946ء كے رمضان ميں انهوں نے كه ديا تھا كه ملاء اعلى ميں پاكستان كے قيام كا فيصله هوچكا هے. اس كے ٹھيك ايك سال بعد اگلے رمضان (ليلة القدر) ميں پاكستان كا قيام واقعتاً عمل ميں آگيا. اس كا مطلب يه هے كه مولانا مدنى رحمه الله كو بذريعه كشف قيام پاكستان كے بارے ميں جس فيصلے كا علم هوا تھا، ملاء اعلى ميں وه فيصله 1946ء كى ليلة القدر ميں اس اصول كے تحت هوا تھا جس كا ذكر سورة الدخان كى آيت 4 ميں آيا هے. اس آيت ميں ليلة القدر (ليلة مباركة) كے بارے ميں فرمايا گيا هے: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ) كه اس رات ميں آينده سال كے دوران رونما هونے والے اهم امور كے فيصلے كرديے جاتے هيں.
مولانا صاحب نظرياتى طور پر قيام پاكستان كے مخالف تھے. ان كے اس انكشاف كے بعد ان كے عقيدت مندوں نے بجا طور پر ان سے پوچھا كه اس فيصلے كا علم هوجانے كے باوجود بھى آپ قيام پاكستان كى مخالفت كيوں كررهے هيں؟ اس پر مولانا صاحب رحمه الله نے جو جواب ديا تھا اس كا خلاصه يه هے كه يه الله تعالى كا تكوينى (كائنات كى سلطنت كا انتظامى) فيصله هے. الله تعالى كو اس سے كيا منظور هے، اس كا هميں علم نهيں. هميں چيزوں كے ظاهر اور سامنے نظر آنے والے حالات كو ديكھنا هے. الله تعالى نے انسان كو ديكھنے، سننے، سمجھنے وغيره كى صلاحيتيں اسى ليے دى هيں كه وه ان صلاحيتوں سے كام ليتے هوئے فيصلے كرے. چناں چه اس معاملے ميں هميں وهى موقف اپنانا چاهيے جس ميں هميں مسلمانان بر صغير كى بهترى نظر آتى هو. ظاهر هے الله تعالى نے يه فيصله اپنى حكمت اور مشيت كے مطابق كيا هے. يه بھى تو ممكن هے كه الله تعالى كى طرف سے يه فيصله «استدراج» كى غرض سے كيا گيا هو. يعنى يه بھى هوسكتا هے كه الله تعالى اس خطے كے مسلمانوں كو ڈھيل دے كر انهيں عذاب ميں مبتلا كرنا چاهتا هو.
قيام پاكستان كے بعد كے حالات كو ديكھ كر محسوس هوتا هے كه مولانا مدنى رحمه الله كا خدشه كافى حد تك درست تھا. اهل پاكستان پر عذاب كا ايك كوڑا تو 1971ء ميں برسا تھا. اس كے بعد بھى ملك كى مجموعى صورت حال كبھى تسلى بخش نهيں رهى، بلكه ميرى رائے ميں اس كا سبب «قيام پاكستان نهيں» بلكه بحيثيت قوم همارا وه مجموعى طرز عمل هے جو قيام پاكستان كے بعد هم نے نظام اسلام كے حوالے سے اختيار كيا هے.