August 25, 2025

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 125

فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلإِسْلاَمِ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاء كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ 

غرض جس شخص کو اﷲ ہدایت تک پہنچانے کا ارادہ کرلے، اُس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے، اور جس کو (اُس کی ضد کی وجہ سے) گمراہ کرنے کا ارادہ کر لے، اُس کے سینے کو تنگ اور اتنا زیادہ تنگ کر دیتا ہے کہ (اُسے ایمان لانا ایسا مشکل معلوم ہوتا ہے) جیسے اُسے زبردستی آسمان پر چڑھنا پڑرہا ہو۔ اِسی طرح اﷲ (کفر کی) گندگی اُن لوگوں پر مسلط کر دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے

آیت 125:   فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہ یَشْرَحْ صَدْرَہ لِلْاِسْلاَمِ:  ’’تو اللہ جس کسی کو ہدایت سے نوازنا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔،،

            یہ ایک غور طلب معنوی حقیقت ہے۔ ’’شرح صدر،، اللہ کی وہ نعمت اور خاص عنایت ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانشراح کی پہلی آیت میں حضور کے لیے ایک بہت بڑے احسان کے طور پر کیا ہے:  اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۔  لہٰذا ہر مسلمان کو اس شرح صدر کے لیے دعا کرنی چاہیے: اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا نَوِّرْ قُلُوْبَنَا بِالْاِیْمَانِ وَاشْرَحْ صُدُوْرَنَا لِلْاِسلَامِ.   ’’ اے اللہ، اے ہمارے ربّ! تو ہمارے دلوں کو نورِ ایمان سے منور فرما دے اور ہمارے سینوں کو اسلام کے لیے کھول دے،،۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی باطنی بصیرت مانگنی چاہیے جس کی وجہ سے اسلام کی ہر چیز ہمیں ٹھیک نظر آئے۔ اور جب ایک بندہ مومن میں ایسی بصیرت پیدا ہو جاتی ہے تو ہر قدم اور ہر موڑ پر اس کو اپنے اندر سے ایک آواز سنائی دیتی ہے جو اس کے ہر عمل پر اس کی تائید کرتی ہے۔ یہ انسان کی ایسی اندرونی کیفیت ہے جس میں اس کی فطرتِ سلیمہ اور نیکی کے جذبے کی آپس میں خوشگوار مطابقت پیدا ہوجاتی ہے اور پھر اسے دین کے کسی حکم سے کسی قسم کی کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ بقولِ غالب:

دیکھنا   تقریر  کی  لذت  کہ  جو  اُس  نے  کہا

میں نے یہ جا ناکہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے!

            وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہ یَجْعَلْ صَدْرَہ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ:  ’’اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اُس کے سینے کو بالکل تنگ کر دیتا ہے، گھٹا ہوا (وہ ایسے محسوس کرتا ہے) گویا اُسے آسمان میں چڑھنا پڑ رہا ہے۔،،

            جیسے اونچائی پر چڑھتے ہوئے انسان کی سانس پھول جاتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا دل شاید دھڑک دھڑک کر باہر ہی نکل آئے گا، ایسے ہی اگر اللہ کی طرف سے انسان کو ہدایت کی توفیق عطا نہ ہوئی ہو تو اس کے لیے راہِ حق پر چلنا دنیا کا مشکل ترین کام بن جاتا ہے۔ ذرا سی کہیں آزمائش آ جائے تو گویا اس کے لیے قیامت ٹوٹ پڑتی ہے اور ایک ایک قدم اٹھانا ا س کے لیے دوبھر ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف وہ شخص جس کو اللہ نے شرح صدر کی نعمت سے نوازا ہے اس کے لیے نہ صرف حق کو قبول کرنا آسان ہوتا ہے بلکہ اس راہ کی ہر تکلیف اور ہر مشکل کو وہ شوق اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے۔

            کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللّٰہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ:  ’’اس طرح اللہ ناپاکی مسلط  کر دیتا ہے ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے۔،، 

UP
X
<>