August 2, 2025

قرآن کریم > الواقعة >sorah 56 ayat 82

وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ

اور تم نے اسی کو اپنا روزگار بنالیا ہے کہ (اس کو) جھٹلاتے رہو؟

آيت 82:  وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ:  «اور تم نے اپنا نصيب يه ٹھهرا ليا هے كه تم اس كو جھٹلا رهے هو!»

اس حوالے سے يه نكته بھى ياد ركھيں كه قرآن كا جھٹلانا ايك تو زبانى هے اور دوسرا عملى. زبانى اور نظرياتى طور پر تو قرآن مجيد كو مشركينِ عرب جھٹلاتے تھے يا هر زمانے كے بهت سے غير مسلم جھٹلاتے هيں كه يه الله كا كلام نهيں بلكه خود محمد كى تصنيف هے. جبكه عملى طور پر اسے هم مسلمان جھٹلاتے هيں، هم نظرياتى طور پر تو اسے الله كا كلام مانتے هيں اور زبان سے اس كا اقرار بھى كرتے هيں، مگر اس كے احكام ماننے سے كھلم كھلا اعراض كرتے هيں.

همارى اس كيفيت كى مثال الله تعالى نے يهوديوں كے حوالے سے ان الفاظ ميں بيان فرمائى هے: (مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا) {الجمعة: 5} كه جو لوگ حاملِ تورات بنائے گئے اور پھر انهوں نے اس كى ذمه داريوں كو ادا نه كيا، ان كى مثال اس گدھے كى سى هے جس پر كتابوں كا بوجھ لدا هوا هو. اگر آپ ايك گدھے پر «مكالماتِ افلاطون» اور «انسائيكلو پيڈيا برٹانيكا» كى تمام جلديں لاد ديں تو ان كتابوں كو اُٹھا لينے سے وه ان كا عالم تو نهيں بن جائے گا. اس آيت كى روشنى ميں يهوديوں كے طرزِ عمل كا جائزه ليں تو انهوں نے زبان سے كبھى تورات كى تكذيب نهيں كى، بلكه وه ابھى تك اسے اپنے سينوں سے لگائے بيٹھے هيں. اس ليے قرآن مجيد نے مذكوره آيت ميں ان كى جس تكذيب كا ذكر كيا هے وه عملى تكذيب هے. بالكل اسى طرح هم بھى آج قرآن مجيد كو سينے سے لگائے بيٹھے هيں، ليكن عملى طور پر اس كے احكام كى تعميل سے روگردانى كر كے مذكوره بالا مثال كى مصداق بنے هوئے هيں. ايك حديث كے مطابق تو همارے اس طرزِعمل سے قرآن مجيد پر همارے زبانى ايمان كى بھى تكذيب هوتى هے، حضور نے فرمايا:  (مَا آمَنَ بِالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَهُ)) «جس نے قرآن كى حرام كرده اشيا كو اپنے ليے حلال ٹھهرا ليا اس كا قرآن پر كوئى ايمان نهيں».

قرآن مجيد كى اس عملى تكذيب كے علاوه آج هم مسلمان اس كى «تكذيب حالى» كے بھى مرتكب هو رهے هيں. تكذيب حالى يه هے كه كسى شخص كا حال اس حقيقت كى گواهى دے رها هو كه اس كے نزديك فلاں چيز كى كوئى اهميت نهيں هے. قرآن مجيد كے حوالے سے اپنى تكذيبِ حالى كو سمجھنے كے ليے آپ اپنے هاں كے ايك عام ڈاكٹر كى مثال لے ليں. اس نے رات دن ايك كر كے پچيس سال كى عمر ميں ايم بى بى ايس كيا، پھر ايف آر سى ايس كا امتحان پاس كيا، اس كے بعد وه امريكه گيا وهاں جا كر امتحان ديا، وهاں كے بورڈز سے يه ڈپلومه، وه ڈپلومه ......! اس پڑھائى ميں اس نے اپنى زندگى كے پينتيس چاليس سال كھپا ديے. اس كے بعد وهيں ملازمت اختيار كر لى..... يا واپس آ كر اپنى ملازمت اور پريكٹس ميں كوهلُو كے بيل كى طرح جت گيا. مشن كيا هے؟ معاش اچھى هو جائے اور معيارِ زندگى بلند هو جائے! يه مشن تو اس نے حاصل كر ليا، ليكن اپنى زندگى كے ماه وسال ميں سے اس نے قرآن مجيد سيكھنے كے ليے كوئى وقت نكالا اور اس كے ليے كوئى محنت كى؟ اگر اس سوال كا جواب نفى ميں هے تو اس كا حال گويا چيخ چيخ كر گواهى دے رها هے كه اس شخص كى زندگى ميں قرآن كى كوئى اهميت نهيں. اور اس كى اصل وجه يه هے كه اس كے دل كى گهرائيوں ميں قرآن مجيد كے كلام الله هونے كے بارے ميں يقين نهيں.

ياد رهے كه سورة الرحمن كى ابتدائى آيات ميں قرآن كے حقوق ادا كرنے كى ترغيب مثبت انداز ميں دلائى گئى تھى، جبكه يهاں سورة الواقعه كے اختتام پر اسى ترغيب كے ليے منفى انداز اپنايا گيا هے. يعنى سورة الرحمن كى چار ابتدائى آيات كے بين السطور ميں يه پيغام مضمر تھا كه اگر رحمن نے اپنا كلام «قرآن» تمهارے پاس بھيجا هے اور تمهيں «بيان» كى صلاحيت سے بھى نوازا هے تو تمهارى اس طاقت لسانى كا بهترين اور لازمى مصرف يهى هے كه تم اس صلاحيت كو قرآن كے ليے وقف كر دو. جبكه يهاں سورة الواقعه كى ان آيات ميں يه تنبيه مضمر هے كه جو لوگ قرآن كے حقوق كما حقه ادا نهيں كرتے آخرت ميں انهيں اس كے ليے جواب ده هونا پڑے گا اور كوتاهى ثابت هونے پر ان كى سخت گرفت هو گى.

جيسا كه قبل ازيں بھى بار بار ذكر هوا هے كه سورة الرحمن اور سورة الواقعه باهم جوڑا هيں اور ان كے مضامين بھى باهم مشابه ومربوط هيں. البته زير مطالعه آيات كا مضمون صرف اسى سورت ميں آيا هے، اس كے مقابل سورة الرحمن ميں ايسا كوئى مضمون نهيں هے. گويا يه مضمون اس سورت كى اضافى شان هے. 

UP
X
<>