July 19, 2025

قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 44

إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُواْ لِلَّذِينَ هَادُواْ وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُواْ مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُواْ عَلَيْهِ شُهَدَاء فَلاَ تَخْشَوُاْ النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلاً وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ 

بیشک ہم نے تورات نازل کی تھی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا۔ تمام نبی جو اﷲ تعالیٰ کے فرماں بردار تھے، اسی کے مطابق یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور تمام اﷲ والے اور علماء بھی (اسی پر عمل کرتے رہے) کیونکہ ان کو اﷲ کی کتاب کا محافظ بنایا گیاتھا، اور وہ اس کے گواہ تھے۔ لہٰذا (اے یہودیو !) تم لوگوں سے نہ ڈرو، اور مجھ سے ڈرو، اور تھوڑی سی قیمت لینے کی خاطر میری آیتوں کا سودا نہ کیا کرو۔ اورجو لوگ اﷲ کے نازل کئے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہ لوگ کافر ہیں

            سورۃ المائدۃ کا یہ ساتواں  رکوع حسن ِاتفاق سے سات ہی آیات پرمشتمل ہے۔ اس میں  بہت سخت تہدید،  تنبیہہ اور دھمکی ہے ان لوگوں  کے لیے جو کسی آسمانی شریعت پر ایمان کے دعوے دار ہوں  اور پھر اس کے بجائے کسی اور قانوں کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہوں۔  قرآن حکیم کی طویل سورتوں  میں  کہیں  کہیں  تین تین آیتوں  کے چھوٹے چھوٹے گروپ ملتے ہیں  جو معانی و مفہوم کے لحاظ سے بہت جامع ہوتے ہیں ،  جیسا کہ سورہ آلِ عمران کی آیات 102، 103  اور 104 ہیں ۔  ابھی سورۃ المائدۃ میں  بھی تین آیات پر مشتمل نہایت جامع احکامات کا حامل ایک مقام آئے گا۔  اسی طرح کہیں  کہیں  سات سات آیات کا مجموعہ بھی ملتا ہے۔ جیسے سورۃ البقرۃ کے پانچویں  رکوع کی سات آیات (40 تا 46)  بنی اسرائیل سے خطاب کے ضمن میں  نہایت جامع ہیں ۔  یہ دعوت کے ابتدائی انداز پر مشتمل ہیں  اور دعوت کے باب میں  بمنزلہ فاتحہ ہیں۔  اسی طرح قانونِ شریعت کی تنفیذ،  اس کی اہمیت اور اس سے پہلو تہی پر وعید کے ضمن میں  زیر مطالعہ رکوع کی سات آیات نہایت تاکیدی اور جامع ہیں ، بلکہ یہ مقام اس موضوع پر قرآن حکیم کا ذروہ ٔسنام  (climax)  ہے۔

 

آیت 44:  اِنَّـــآ اَنْزَلْـنَا التَّوْرٰٹۃَ:  ،،یقیناہم نے ہی نازل فرمائی تھی تورات،،

             فِیْہَا ہُدًی وَّنُــوْرٌ:  ،،اس میں  ہدایت بھی تھی اور نور بھی تھا۔ ،،

             یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ:  ،،اس کے مطابق فیصلے کرتے تھے انبیاء،،

             الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا:  ،،جو کہ سب فرمان بردار تھے(اللہ کے)،،

            ظاہر ہے کہ تمام انبیا کرام  خود بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان بردار تھے۔

             لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا:  ،،(اور وہ فیصلے کرتے تھے)  یہودیوں کے لیے،،

            یعنی انبیا کرام یہودیوں  کے تمام فیصلے تورات ( شریعت ِموسوی) کے مطابق کرتے تھے،  جیسا کہ حدیث میں  ہے «کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاء»  یعنی بنی اسرائیل کی سیاست اور حکومت کے معاملات،  انتظام  و انصرام،  انبیاء کے ہاتھ میں  ہوتا تھا۔  اس لیے وہی ان کے مابین نزاعات کے فیصلے کرتے تھے۔

             وَالرَّبّٰنِـیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ:  ،،اور درویش اور علماء،،

            ان کے ہاں  اللہ والے صوفیاء اور علماء و فقہاء بھی تورات ہی کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔

             بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ:  ،،بسبب اس کے کہ وہ کتاب اللہ کے نگران بنائے گئے تھے،، ُ

            انہیں  ذمہ داری دی گئی تھی کہ انہیں  کتاب اللہ کی حفاظت کرنی ہے۔

             وَکَانُوْا عَلَـیْہِ شُہَدَآء:  ،،اور وہ اس پر گواہ تھے۔ ،،

             فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ:  ،،(تو ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ)  تم لوگوں  سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو،،

             وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰـتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً:   ،،اور میری آیات کو حقیر سی قیمت پر فروخت نہ کرو۔ ،،

            یعنی اللہ کا طے کردہ قانون موجود ہے، اس کے مطابق فیصلے کرو۔  لوگوں  کو پسند ہو یا ناپسند، اس سے تمہارا بالکل کوئی سروکار نہیں  ہونا چاہیے۔  اب آ رہی ہے وہ کانٹے والی بات:

             وَمَنْ لَّــمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ:  ،،اور جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں  کرتے وہی تو کافر ہیں ۔ ،،

             بقولِ علامہ اقبال:    

بتوں  سے تجھ کواُمیدیں،  خدا سے نومیدی

مجھے  بتا  تو  سہی اور  کافری  کیا  ہے؟

UP
X
<>