قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 36
فَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
غرض تمہیں جو کوئی چیز دی گئی ہے، وہ دُنیوی زندگی کی پونجی ہے، اور جو کچھ اﷲ کے پاس ہے، وہ اُن لوگوں کیلئے کہیں بہتر اور پائیدار ہے جو ایمان لائے ہیں ، اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں
گزشتہ آیات میں مکی سورتوں کے عمومی مضامین مثلاًمشرکین کے ساتھ ردوکدح، آخرت کی جزا و سزا اوراللہ کی نشانیوں اور نعمتوں کا تذکرہ تھا، لیکن اس کے بعد موضوع پھر سے سورت کے عمود یا مرکزی مضمون کی طرف لوٹ رہا ہے۔ چنانچہ آئندہ آٹھ آیات میں وہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں جو اقامت دین کی جدوجہد کرنے والے افراد کی سیرت کے لیے ناگزیز ہیں۔ انہی اوصاف کو اپنانے سے دراصل ایک ایسے مردِ مؤمن کے کردار کا نقشہ تیار ہوتا ہے جو اس میدانِ کارزار میں قدم رکھتے ہوئے طے کر لیتا ہے کہ: اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ: (الانعام) ’’ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے‘‘۔ اقامت دین کی جدوجہد کے علمبردار افراد کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان اوصاف کو اپنائے بغیر ان کے کردار و عمل میں وہ مضبوط ’’جان‘‘ پیدا نہیںہو گی جو اس ’’معرکہ ٔروح و بدن‘‘ میں پیش کرنے کے لیے درکار ہے۔ اسی ضرورت اور شرط کو اقبال ؔنے یوں بیان کیا ہے:
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے!
آئیے اب ہم ایک ایک کر کے ان اوصاف کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی ہدایت ملاحظہ ہو:
آیت ۳۶: فَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا: ’’پس جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے وہ دنیا ہی کی زندگی کا سازو سامان ہے۔‘‘
وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ : ’’اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں اور اپنے رب پر ّتوکل کرتے ہیں۔‘‘
گویا اس منزل کے مسافروں کو سب سے پہلے اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی اور ایسی سوچ اپنانا ہو گی جس کے مطابق دنیا و مافیہا انہیں ہیچ نظر آئے اور اس کے مقابلے میں آخرت کی زندگی ان کا اصل مقصود و مطلوب بن جائے۔ اگر دنیا کی محبت دل کے کسی گوشے میں چھپی رہ گئی تو وہ اس میدان کے بڑے سے بڑے شہسوار کو بھی کبھی نہ کبھی ضرور اڑنگا لگا کر منہ کے بل گرائے گی۔ چنانچہ آدمی سب سے پہلے یہ طے کرے کہ وہ طالب ِآخرت ہے یا طالبِ دنیا؟ اقامت دین کی جدوجہد کے علمبرداروں کا پہلا وصف یہاں یہ بیان ہوا ہے کہ وہ دنیا سے بے رغبتی اختیار کر کے آخرت کو اپنا مقصود و مطلوب بنا لیتے ہیں، جبکہ آیت کے اختتامی الفاظ کے مطابق ان کا دوسرا وصف یہ ہے (وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ) یعنی وہ ہر حال اور ہر کیفیت میں اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں۔