May 26, 2025

قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 22

تَرَى الظَّالِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ لَهُم مَّا يَشَاؤُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الكَبِيرُ

(اُس وقت) تم ان ظالموں کو دیکھو گے کہ انہوں نے جو کمائی کی ہے، اُس (کے وبال) سے سہمے ہوئے ہوں گے، اور وہ ان پر پڑ کر رہے گا۔ اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ، اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں ، وہ جنتوں کی کیاریوں میں ہوں گے۔ اُنہیں اپنے پروردگار کے پاس وہ سب کچھ ملے گا جو وہ چاہیں گے۔ یہی بڑا فضل ہے

آیت ۲۲:  تَرَی الظّٰلِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا کَسَبُوْا: ’’تم دیکھو گے ان ظالموں کو کہ وہ اپنے کرتوتوں کے سبب ڈر رہے ہوں گے‘‘

        قیامت کے دن کفار و مشرکین اپنے غلط عقائد اور برے اعمال کے سبب خوف زدہ ہوں گے۔ دراصل نیکی و بدی کے بارے میں انسان کا ضمیر بہت حساس ّہے (بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ) (القیامۃ) ’’بلکہ انسان اپنے نفس پر خود گواہ ہے‘‘۔ یہ آیت بہت واضح انداز میں ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی ضمیر اپنے اندر کی گہرائیوں میں جھانک کر بغیر کسی مصلحت اور تعصب کے غلط اور درست کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چنانچہ قیامت کے دن تمام غلط کار انسان اپنے اعمال کو دیکھتے ہوئے حساب و کتاب سے پہلے ہی خوف سے کانپ رہے ہوں گے۔

         وَہُوَ وَاقِعٌ بِہِمْ: ’’اور وہ ان کے اوپر پڑنے والا ہو گا۔‘‘

        ان کے عقائد و افعال کا وبال ان کے سروں پر گرنے والا ہو گا۔ لیکن دوسری طرف اہل ِایمان کی کیفیت اس کے برعکس ہو گی:

         وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیْ رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ: ’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ پر کاربند رہے وہ جنتوں کے باغات میں ہوں گے۔‘‘

         لَہُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ: ’’ان کے لیے ان کے رب کے پاس وہ سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے۔ یہی (ان کے لیے) بہت بڑی فضیلت ہو گی۔‘‘

UP
X
<>