قرآن کریم > فصّلت >sorah 41 ayat 47
إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَاتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَى وَلا تَضَعُ إِلاَّ بِعِلْمِهِ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِن شَهِيدٍ
قیامت کا علم اُسی کی طرف لوٹایا جا تا ہے۔ اور اﷲ کے علم کے بغیر نہ پھلوں میں سے کوئی پھل دیتے شگوفوں سے نکلتا ہے، اور نہ کسی مادہ کو حمل ٹھہرتا ہے، اور نہ اُس کے کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اور جس دن وہ ان (مشرکوں ) کو پکارے گا کہ : ’’ کہاں ہیں میرے وہ شریک؟‘‘ تو وہ کہیں گے کہ : ’’ ہم تو آپ سے یہی عرض کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی اب اس بات کا گواہ نہیں ہے (کہ آپ کا کوئی شریک ہے)‘‘
آیت ۴۷: اِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ: ’’اُسی کی طرف لوٹتا ہے قیامت کا علم۔‘‘
یعنی قیامت کا علم صرف اُسی کے پاس ہے۔
وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَکْمَامِہَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰی وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ: ’’اور نہیں نکلتے کوئی پھل اپنے غلافوں سے اور نہ کسی مادہ کو حمل ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اس کو جنتی ہے، مگر اُسی کے علم سے۔‘‘
یعنی صرف قیامت ہی نہیں بلکہ تمام امورِ غیب کا علم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ جزئیات کا بھی اتنا تفصیلی علم رکھتا ہے کہ اُس کی نگاہ سے کسی شخص کا کوئی چھوٹا سا عمل بھی مخفی نہیں رہ سکتا۔
واضح رہے کہ یہاں پر اُنْثٰی کا لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے انسانوں کے علاوہ تمام حیوانات کی ماداؤں کا احاطہ بھی کرتا ہے۔
وَیَوْمَ یُنَادِیْہِمْ اَیْنَ شُرَکَآئِیْ: ’’اور جس دن وہ ان کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک؟‘‘
قَالُوْٓا اٰذَنّٰکَ مَا مِنَّا مِنْ شَہِیْدٍ : ’’ وہ کہیں گے : ہم نے تو آپ سے عرض کر دیا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کی گواہی دینے والا نہیں۔‘‘
اُس وقت وہ بے بسی کے عالم میں یہ بھی نہیں کہہ سکیں گے کہ دنیا میں ہم نے واقعتا کچھ سہارے ڈھونڈ کر ان سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔