11 Muharram ,1447 AHJuly 8, 2025

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 19

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاء كَرْهًا وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلاَّ أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا

ا ے ایمان والو ! یہ بات تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ تم زبردستی عورتوں کے مالک بن بیٹھو، اور ان کو اس غرض سے مقید مت کرو کہ تم نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس کا کچھ حصہ لے اُڑو، الا یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں ۔ اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو، اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اﷲ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو

 آیت 19:   یٰٓـــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَحِلُّ لَــکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآء کَرْہًا: ’’اے اہل ِایمان! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم عورتوں کو زبردستی وراثت میں لے لو۔‘‘   ّ

            یہ بھی عرب جاہلیت کی ایک مکروہ رسم تھی جس میں عورتوں کے طبقے پر شدید ظلم ہوتا تھا۔ ہوتا یوں تھا کہ ایک شخص فوت ہوا ہے‘  اس کی چار پانچ بیویاں ہیں‘ تو اس کا بڑا بیٹا وارث بن گیا ہے۔ اب اس کی حقیقی ماں تو ایک ہی ہے‘ باقی سوتیلی مائیں ہیں‘ تو وہ ان کو وراثت میں لے لیتا تھا کہ یہ میرے قبضے میں رہیں گی‘ بلکہ ان سے شادیاں بھی کر لیتے تھے یا بغیر نکاح اپنے گھروں میں ڈالے رکھتے تھے‘ یا پھر یہ کہ اختیار اپنے ہاتھ میں رکھ کر ان کی شادیاں کہیں اور کرتے تھے تو مہر خود لے لیتے تھے۔ چنانچہ فرمایا کہ اے اہل ایمان! تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث بن بیٹھو! جس عورت کا شوہر فوت ہو گیا وہ آزاد ہے۔ عدت گزار کر جہاں چاہے جائے اور جس سے چاہے نکاح کر لے۔   ّ  ِ

             وَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَـآ اٰتَـیْتُمُوْہُنَّ: ’’اور نہ یہ جائز ہے کہ تم انہیں روکے رکھو تاکہ تم ان سے واپس لے لو اس کا کچھ حصہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے‘‘

            نکاح کے وقت تو بڑے چاؤ تھے‘  بڑے لاڈ اٹھائے جا رہے تھے اور کیا کیا دے دیا تھا‘ اور اب وہ سب واپس ہتھیانے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں‘ انہیں تنگ کیا جا رہا ہے‘ ذہنی طور پر تکلیف پہنچائی جا رہی ہے۔

              اِلَّآ اَنْ یَّـاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّـبَــیِّنَۃٍ: ’’ہاں اگر وہ صریح بد کاری کی مرتکب ہوئی ہوں (تو تمہیں ان کو تنگ کرنے کا حق ہے)۔‘‘

            اگر کسی سے صریح حرام کاری کا فعل سرزد ہو گیا ہو اور اس پر اسے کوئی سزا دی جائے (جیسے کہ اوپر آ چکا ہے فَاٰذُوْہُمَا ) اس کی تو اجازت ہے۔ اس کے بغیر کسی پر زیادتی کرنا جائز نہیں ہے۔ خاص طور پر اگر نیت یہ ہو کہ میں اس سے اپنا مہر واپس لے لوں‘ یہ انتہائی کمینگی ہے۔

             وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ: ’’اور عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے پر معاشرت اختیار کرو۔‘‘

            ان کے ساتھ بھلے طریقے پر‘ خوش اسلوبی سے‘ نیکی اور راستی کے ساتھ گزر بسر کرو۔

             فَاِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَـعَسٰٓی اَنْ تَـکْرَہُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا: ’’اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو بعید نہیں کہ ایک چیز تمہیں ناپسند ہو اور اس میں اللہ نے تمہارے لیے بہت کچھ بہتری رکھ دی ہو۔‘‘

            اگر تمہیں کسی وجہ سے اپنی عورتیں ناپسند ہو گئی ہوں تو ہو سکتا ہے کہ کسی شے کو تم ناپسند کرو‘ درآنحالیکہ اللہ نے اسی میں تمہارے لیے خیر کثیر رکھ دیا ہو۔ ایک عورت کسی ایک اعتبار سے آپ کے دل سے اُتر گئی ہے‘ طبیعت کا میلان نہیں رہا ہے‘ لیکن پتا نہیں اس میں اور کون کون سی خوبیاں ہیں اور وہ کس کس اعتبار سے آپ کے لیے خیر کا ذریعہ بنتی ہے۔ تو اس معاملے کو اللہ کے حوالے کرو‘ اور ان کے حقوق ادا کرتے ہوئے‘ ان کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزر بسرکرو۔ البتہ اگر معاملہ ایسا ہو گیا ہے کہ ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے تو طلاق کا راستہ کھلا ہے‘ شریعت اسلامی نے اس میں کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ یہ مسیحیت کی طرح کا کوئی غیر معقول نظام نہیں ہے کہ طلاق ہو ہی نہیں سکتی۔ 

X
<>