May 23, 2025

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 12

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَو امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُوَاْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاء فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ 

اور تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر جائیں اس کا آدھا حصہ تمہارا ہے، بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو انہوں نے کی ہو، اور ان کے قرض کی ادائیگی کے بعد تمہیں ان کے ترکے کا چوتھائی حصہ ملے گا۔ اور تم جو کچھ چھوڑ کر جاؤ اس کا ایک چوتھائی اُن (بیویوں ) کا ہے، بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو اُ س وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو تم نے کی ہو، اور تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد ان کو تمہارے ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے، ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں نہ اولاد، اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن زندہ ہو تو ان میں سے ہر ایک چھٹے حصے کا حق دار ہے۔ اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے، (مگر) جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمے جو قرض ہو اس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ (وصیت یا قرض کے اقرار کرنے سے) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ سب کچھ اﷲ کا حکم ہے، اور اﷲ ہر بات کا علم رکھنے والا، بردبار ہے

 آیت 12:    وَلَــکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَّــمْ یَکُنْ لَّـہُنَّ وَلَــدٌ: ’’اور تمہارا حصہ تمہاری بیویوں کے ترکے میں سے آدھا ہے اگر ان کے کوئی اولاد نہ ہو۔‘‘

            بیوی فوت ہو گئی ہے اور اس کے کوئی اولاد نہیں ہے تو جو وہ چھوڑ گئی ہے اس میں سے نصف شوہر کا ہو جائے گا۔ باقی جو نصف ہے وہ مرحومہ کے والدین اور بہن بھائیوں میں حسب قاعدہ تقسیم ہو گا۔   ِ

             فَاِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَــدٌ فَـلَـکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ: ’’اور اگر اُن کے اولاد ہے تو تمہارے لیے چوتھائی ہے اس میں سے جو انہوں نے چھوڑا‘‘

             مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِہَـآ اَوْ دَیْنٍ: ’’بعد اُس وصیت کی تعمیل کے جو وہ کر جائیں یا بعد ادائے قرض کے۔‘‘    ّ

            اگر مرنے والی نے اولاد چھوڑی ہو تو موجودہ شوہر کو مرحومہ کے مال سے ادائے دَین و انفاذِ وصیت کے بعد کل مال کا چوتھائی حصہ ملے گا اور باقی تین چوتھائی دوسرے ورثاء میں تقسیم ہو گا۔

             وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّـمْ یَکُنْ لَّــکُمْ وَلَــدٌ: ’’اور ان کے لیے چوتھائی ہے تمہارے ترکے کا اگر تمہارے اولاد نہیں ہے۔‘‘

             فَاِنْ کَانَ لَــکُمْ وَلَـدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ: ’’اور اگر تمہارے اولاد ہے تو ان کے لیے آٹھواں حصہ ہے تمہارے ترکے میں سے‘‘

              مِّنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِہَآ اَوْ دَیْنٍ: ’’اُس وصیت کی تعمیل کے بعد جو تم نے کی ہو یا قرض ادا کرنے کے بعد۔‘‘     ّ

            اگر مرنے والے نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی تو ادائے دَین و انفاذِ وصیت کے بعد اس کی بیوی کو اُس کے ترکے کا چوتھائی ملے گا‘ اور اگر اُس نے کوئی اولاد چھوڑی ہے تو اس صورت میں بعد ادائے دَین و وصیت کے بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا۔ اگر بیوی ایک سے زائد ہے تو بھی مذکورہ حصہ سب بیویوں میں تقسیم ہو جائے گا۔

             وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ: ’’اور اگر کوئی شخص جس کی وراثت تقسیم ہو رہی ہے کلالہ ہو‘ یا عورت ہو ایسی ہی‘‘

            ’’کلالہ‘‘ وہ مرد یا عورت ہے جس کے نہ تو والدین زندہ ہوں اور نہ اس کی کوئی اولاد ہو۔

             وَّلَـہ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ: ’’اور اُس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے۔‘‘

             فَاِنْ کَانُوْآ اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَہُمْ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ: ’’اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے‘‘

            ّ مفسرین کا اجماع ہے کہ یہاں کلالہ کی میراث کے حکم میں بھائی اور بہنوں سے مراد اَخیافی (ماں شریک) بھائی اور بہن ہیں۔ رہے عینی اور علاتی بھائی بہن تو ان کا حکم اسی سورت کے آخر میں ارشاد ہوا ہے۔ عربوں میں دراصل تین قسم کے بہن بھائی ہوتے ہیں۔ ایک ’’عینی‘‘ جن کا باپ بھی مشترک ہو اور ماں بھی‘ جنہیں ہمارے ہاں ’’حقیقی‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرے ’’علاتی‘‘ بہن بھائی‘ جن کا باپ ایک اور مائیں جدا ہوں۔ اہل عرب کے ہاں یہ بھی حقیقی بہن بھائی ہوتے ہیں اور ان کا حکم وہی ہے جو ’’عینی‘‘ بہن بھائیوں کا ہے، وہ انہیں ’’سوتیلا‘‘ نہیں سمجھتے۔ ان کے ہاں سوتیلا وہ کہلاتا ہے جو ایک ماں سے ہو لیکن اس کا باپ دوسرا ہو۔ یہ ’’اَخیافی‘‘ بہن بھائی کہلاتے ہیں۔ ایک شخص کی اولاد تھی‘ وہ فوت ہو گیا۔ اس کے بعد اس کی بیوی نے دوسری شادی کر لی۔ تو اب اس دوسرے خاوند سے جو اولاد ہے وہ پہلے خاوند کی اولاد کے اَخیافی بہن بھائی ہیں۔ تو کلالہ کی میراث کے حکم میں یہاں اَخیافی بھائی بہن مراد ہیں۔

             مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِہَـآ اَوْ دَیْنٍ: ’’اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو کی گئی یا ادائے قرض کے بعد‘‘

            یہ دو شرطیں بہرصورت باقی رہیں گی۔ مرنے والے کے ذمے اگر کوئی قرض ہے تو پہلے وہ ادا کیا جائے گا‘ پھر اس کی وصیت کی تعمیل کی جائے گی‘ اس کے بعد میراث وارثوں میں تقسیم کی جائے گی۔

              غَیْرَ مُضَآرٍّ: ’’بغیر کسی کو ضرر پہنچائے۔‘‘

            یہ سارا کام ایسے ہونا چاہیے کہ کسی کو ضرر پہنچانے کی نیت نہ ہو۔

             وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ: ’’یہ تاکید ہے اللہ کی طرف سے۔‘‘

             وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ:’’اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا کمالِ حلم والاہے۔‘‘

            ّاُس کے حلم اور بردباری پر دھوکہ نہ کھاؤ کہ وہ تمہیں پکڑ نہیں رہا ہے۔ ع 

’’نہ جا ا ُس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اُس کی!‘‘

اُس کی پکڑ جب آئے گی تو اس سے بچنا ممکن نہیں ہو گا: اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ:  (البروج)  ’’یقینا تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔‘‘

UP
X
<>