June 7, 2025

قرآن کریم > النمل >sorah 27 ayat 40

قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ

جس کے پاس کتا ب کا علم تھا، وہ بول اُٹھا : ’’میں آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے ہی اُسے آپ کے پاس لے آتا ہوں ۔‘‘ چنانچہ جب سلیمان نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا : ’’ یہ میرے پروردگار کا فضل ہے، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری؟ اور جو کوئی شکر کرتا ہے، تو وہ اپنے ہی فائدے کیلئے شکر کرتا ہے، اور اگر کوئی ناشکری کرے تو میرا پروردگار بے نیاز ہے، کریم ہے۔‘‘

آیت ۴۰   قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ: ’’کہنے لگا وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لے آتا ہوں اس سے قبل کہ آپؑ کی نگاہ پلٹ کر آپؑ کی طرف آئے۔‘‘

      یعنی میں آپ ؑ کے پلک جھپکنے سے پہلے اس کو حاضر کیے دیتا ہوں۔ یہ جس شخص کا ذکر ہے اس کے بارے میں مفسرین کہتے ہیں کہ وہ حضرت سلیمان کے وزیر آصف بن برخیاہ تھے، اور یہ کہ ان کے پاس کتب سماویہ اور اللہ تعالیٰ کے ناموں سے متعلق ایک خاص علم تھا جس کی تاثیر سے انہوں نے اس کام کو ممکن کر دکھایا۔ ہمارے پاس اس موضوع پر نہ تو کوئی مرفوع حدیث ہے اور نہ ہی ان اسمائے الہٰیہ میں ایسی کوئی تاثیر ثابت ہوتی ہے جو ہمیں حضور کی طرف سے بتائے گئے ہیں۔ لہٰذا ہمارا ایمان ہے کہ قرآن میں یہ واقعہ جس طرح مذکور ہے بالکل ویسے ہی وقوع پذیر ہوا ہو گا۔ لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر اس کی تفصیلات میں دلچسپی لینا ہمارے لیے مفید ہوتا تو حضور لازماً وضاحت فرما دیتے کہ اس شخصیت کے پاس کس کتاب کا کون سا علم تھا۔ اور اگر آپؐ کی طرف سے ایسی کچھ ہدایات نہیں دی گئیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں اس بارے میں مزید کسی کھوج ُکرید میں نہیں پڑنا چاہیے۔ چنانچہ اس اعتبار سے یہ آیت متشابہات میں سے ہے۔

      البتہ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ کے الفاظ میں سائنسی اور ٹیکنیکل علم کی طرف بھی اشارہ موجود ہے۔ ہو سکتا ہے انہیں کوئی ایسی ترکیب معلوم ہو جس کے ذریعے سے سائنسی طور پر ایسا کرنا ممکن ہوا ہو۔ بہر حال سائنسی نقطہ نظر سے ایسا ہونا کوئی ناممکن بات بھی نہیں ہے۔ آج سائنس جس انداز اور جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے اس کے نتیجے میں ممکن ہے بہت جلد ایسی ٹیکنالوجی حاصل کر لی جائے جس کے ذریعے سے کسی مادی چیز کو atoms میں تحلیل کرنا اور پھر ان atoms کو چشم زدن میں دوسری جگہ منتقل کر کے ان سے اس چیز کو اسی حالت میں دوبارہ ٹھوس شکل دے دینا ممکن ہو جائے۔

      فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ: ’’پھر جب اُس نے دیکھا اسے اپنے سامنے رکھا ہوا‘‘

      یعنی وہ صاحب اپنے دعوے کے مطابق اس تخت کو واقعی پلک جھپکنے سے پہلے لے آئے اور جب حضرت سلیمان نے اسے اپنے سامنے دیکھا تو بے اختیار آپ اللہ کی حمد و ثنا کرنے لگے۔

      قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ: ’’اُس ؑنے کہا کہ یہ میرے رب ہی کے فضل سے ہے‘‘

      کوئی دنیا دار بادشاہ ہوتا تو اپنے وزیر کے کمال کو بھی اپنا ہی کمال قرار دیتا، لیکن حضرت سلیمان نے اسے اللہ کا فضل قرار دیا اور اس کا شکر ادا کیا۔ بندگی کا کامل نمونہ بھی یہی ہے کہ انسان بڑی سے بڑی کامیابی کو اپنا کمال سمجھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا انعام جانے اور اس پر اس کا شکر ادا کرے۔

      لِیَبْلُوَنِیْٓ ءَاَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ: ’’تا کہ وہ مجھے آزمائے کہ کیا میں شکر ادا کرتا ہوں یا نا شکری کرتاہوں۔‘‘

      وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ: ’’اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی (بھلے کے) لیے کرتا ہے۔‘‘

      وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ: ’’اور جو کوئی نا شکری کرتا ہے تو میرا رب یقینا بے نیاز ہے، بہت کرم کرنے والا۔‘‘

UP
X
<>