June 1, 2025

قرآن کریم > النمل >sorah 27 ayat 34

قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ

ملکہ بولی : ’’ حقیقت یہ ہے کہ بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں گھس آتے ہیں تو اُسے خراب کر ڈالتے ہیں ، اور اُس کے باعزت باشندوں کو ذلیل کر کے چھوڑتے ہیں ، اور یہی کچھ یہ لوگ بھی کریں گے

آیت ۳۴   قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا: ’’اُس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد برپا کر دیتے ہیں‘‘

      اس نازک موقع پر ملکہ نے بڑی دانش مندانہ بات کی کہ بادشاہوں کا ہمیشہ سے ہی دستور رہا ہے کہ وہ جس شہر یا علاقے کو فتح کرتے ہیں اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔

      وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ: ’’اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں، اور وہ ایسے ہی کرتے ہیں۔‘‘

      ملکہ کی یہ بات بھی بہت اہم اور حقیقت پر مبنی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’خضر راہ‘‘ کے ذیلی عنوان ’’سلطنت‘‘ کے تحت جو فلسفہ بیان کیا ہے اس کا مرکزی خیال انہوں نے اسی آیت سے اخذ کیا ہے اور پہلے شعر میں اس آیت سے تلمیح بھی استعمال کی ہے۔ نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے : 

 آ  بتاؤں   تجھ    کو   رَمز  آیۂ   اِنَّ   الْمُلُوْک

 سلطنت  اقوامِ  غالب  کی  ہے  اک  جادو گری

 خواب سے  بیدار   ہوتا  ہے  ذرا  محکوم  اگر

 پھر سلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری!

      برعظیم پاک وہند میں مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ یہاں مسلمان حکمران تھے جبکہ ہندو ان کے محکوم تھے۔ انگریزوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے ہندوؤں کو تو کچھ خاص فرق نہ پڑا، ان کے تو صرف حکمران تبدیل ہوئے، پہلے وہ مسلمانوں کے غلام تھے، اب انگریزوں کے غلام بن گئے، لیکن مسلمان تو گویا آسمان سے زمین پر پٹخ دیے گئے۔ وہ حاکم سے محکوم بن گئے۔ اب اگر انگریزوں کو کچھ خطرہ تھا تو مسلمانوں سے تھا۔ انہیں خدشہ تھا کہ مسلمان اپنا کھویا ہوا اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ضرور کوشش کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کی ممکنہ بغاوت کی پیش بندی کے لیے انہیں ہر طرح سے دبانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے یہ طریقہ اپنایا کہ معاشرے کے گھٹیا لوگوں کو تو خطابات اور جاگیروں سے نواز کر اعلیٰ مناصب پر بٹھا دیا اور ان کے مقابلے میں معززین اور شرفاء کو ہر طرح سے ذلیل و رسوا کیا۔ ایسے تمام جاگیردار انگریزوں کا حقِ نمک ادا کرتے ہوئے اپنی قوم کے مفادات کے خلاف اپنے آقاؤں کی معاونت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔

      یہی حکمت ِعملی مصر میں فرعون نے بھی اپنا رکھی تھی۔ اس نے بھی بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگوں کو اپنے دربار میں جگہ دے رکھی تھی۔ یہ مراعات یافتہ لوگ فرعون کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی قوم کی مخبری کرتے اور اپنے ہی بھائی بندوں کے خلاف فرعون کے معاون و مدد گار بنتے۔ سورۂ یونس کی آیت: ۸۳ میں اس صورتِ حال کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے: (فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلاَّ ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہِ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلاَئِہِمْ اَنْ یَّفْتِنَہُمْ) ’’پس نہیں ایمان لائے موسیٰ پر مگر کچھ نوجوان اُس کی قوم میں سے، فرعون اور اپنے سرداروں کے خوف کی وجہ سے کہ وہ انہیں کسی مصیبت میں مبتلا نہ کر دیں‘‘۔ گویا بنی اسرائیل کے عام لوگوں پر اپنے ان سرداروں کا خوف طاری تھا جو فرعون کی وفاداری میں اپنی ہی قوم پر ظلم و ستم روا رکھتے تھے۔

 

UP
X
<>