قرآن کریم > النّور >surah 24 ayat 55
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ، اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں ، اُن سے اﷲ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا، جس طرح اُن سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا، اور اُن کیلئے اُس دین کو ضرور اِقتدار بخشے گا جسے اُن کیلئے پسند کیا ہے، اور اُن کو جو خوف لاحق رہاہے، اُس کے بدلے اُنہیں ضرور اَمن عطا کرے گا۔ (بس) وہ میری عبادت کریں ، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی ناشکری کریں گے، تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے
آیت ۵۵: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: «اللہ کا وعدہ ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں»
یہ وعدہ محض موروثی اور نام کے مسلمانوں کے لیے نہیں ہے، جو اللہ کے احکام کی کلی تعمیل کو اپنا شعار بنانے اور اس کے راستے میں جان و مال کی قربانی دینے کے لیے سنجیدہ نہ ہوں، بلکہ یہ وعدہ تو اُن مؤمنین ِصادقین کے لیے ہے جو ایمان اور عمل ِصالح کی شرائط پوری کریں۔ یعنی جو ایمانِ حقیقی کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے ہوں۔
: لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ: «کہ وہ ضرور انہیں زمین میں خلافت (غلبہ) عطا کرے گا، جیسے اُس نے ان سے پہلے والوں کو خلافت عطا کی تھی۔»
یعنی اے اُمتِ محمد! اگر تم لوگ ایمانِ حقیقی اور اعمالِ صالحہ کی دو شرائط پوری کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں زمین میں اسی طرح غلبہ اور اقتدار عطا کرے گا جس طرح اس سے پہلے اس نے حضرت طالوت، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کو خلافت عطا کی تھی یا حضرت سلیمان کے بعد بنی اسرائیل کو مکابی سلطنت کی صورت میں اقتدار عطا کیا تھا۔ اس آیت میں خلافت کے وعدے کو تین مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اوّل تو یہ تاکیدی وعدہ ہے کہ اللہ لازماً مسلمانوں کو بھی خلافت عطا فرمائے گا جیسے اس نے سابقہ امت کے اہل ایمان کو خلافت عطا کی تھی۔ پھر فرمایا:
: وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ: «اور وہ ضرور ان کے اس دین کو غلبہ عطا کرے گا جو اُن کے لیے اُس نے پسند کیا ہے»
اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ دین کو لازماً غالب کرے گا۔ ظاہر بات ہے کہ جہاں مسلمانوں کی خلافت ہو گی وہاں لازماً اللہ کے دین کا غلبہ ہو گا اور اگر کسی حکومت میں اللہ کا دین غالب ہو گا تو وہ لازماً مسلمانوں ہی کی خلافت ہو گی۔ گویا بنیادی طور پر تو یہ ایک ہی بات ہے، لیکن صرف خلافت کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے پہلی بات کو یہاں دوسرے انداز میں دہرایا گیا ہے۔ البتہ یہاں اس دین کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے جو اللہ نے مسلمانوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔ سورۃ المائدۃ کی آیت: ۳ میں باقاعدہ نام لے کر بتایا گیا ہے کہ اللہ نے تمہارے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا ہے: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا: «آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کی تکمیل فرما دی ہے، اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرما دیا ہے، اور تمہارے لیے میں نے پسند کر لیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے»۔ بہر حال دوسری بات یہاں یہ بتائی گئی کہ خلافت ملے گی تو اس کے نتیجے کے طور پر اللہ کا دین لازماً غالب ہو گا۔ اور تیسری بات:
وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا: «اور وہ ان کی (موجودہ) خوف کی حالت کے بعد اس کو لازماً امن سے بدل دے گا۔»
یہ اس کیفیت کی طرف اشارہ ہے جو ہجرت کے فوراً بعد کے زمانے میں مسلمانوں پر طاری تھی۔ اس زمانے میں مدینہ کے اندر مسلسل ایمرجنسی کی سی حالت تھی۔ فلاں قبیلے کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے! فلاں قبیلہ جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے! کل قریش مکہ کی طرف سے ایک خوفناک سازش کی خبر پہنچی تھی! آج ابو عامر راہب کے ایک شیطانی منصوبے کی اطلاع آن پہنچی ہے! غرض ہجرت کے بعد پانچ سال تک مسلمان مسلسل ایک خوف کی کیفیت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور رہے۔ اس صورت حال میں انہیں خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ اب خوف کی وہ کیفیت امن سے بدلنے والی ہے۔
تینوں وعدوں کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ یہاں بار بار حروفِ تاکید استعمال ہوئے ہیں۔ تینوں افعال میں مضارع سے پہلے لام مفتوح اور بعد میں «ن» مشدد آیاہے، گویا تینوں وعدے نہایت تاکیدی وعدے ہیں۔
: یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا: «وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔»
میرے نزدیک یہ حکم مستقبل سے متعلق ہے۔ یعنی جب میرا دین غالب آ جائے گا تو پھر مسلمان خالص میری بندگی کریں گے اور کسی قسم کا شرک گوارا نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اللہ کی حکومت قائم نہیں ہو گی تو معاشرہ شرک سے ُکلی ّطور پر پاک نہیں ہو سکے گا۔ جیسے ہم پاکستان کے مسلمان شہری آج قومی اور اجتماعی اعتبار سے کفر و شرک کے ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج اگر ہم سب انفرادی طور پر اپنے ذاتی عقائد بالکل درست بھی کر لیں اور اپنے آپ کو تمام مشرکانہ اوہام سے پاک کر کے عقیدۂ توحید کو راسخ بھی کر لیں تو بھی ہم خود کو شرک سے کلی طور پر پاک کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ یعنی جب تک ملک میں اللہ کا قانون نافذ اوراللہ کا دین عملی طور پر غالب نہیں ہو جاتا اورجب تک ملک میں دوسرے قوانین کے بجائے اللہ کے قانون کی بالا دستی قائم نہیں ہو جاتی اُس وقت تک اس ملک کے شہری ہونے کے اعتبار سے ہم کفر اور شرک کی اجتماعیت میں برابر کے شریک رہیں گے۔ چنانچہ کسی ملک یا علاقے میں عملاًتوحید کی تکمیل اُس وقت ہو گی جب اللہ کے فرمان کے مطابق دین کل کا کل اللہ کے لیے ہو جائے گا: وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّٰہِ: (الانفال: ۳۹)۔
وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ: «اور جو اس کے بعد بھی کفر کرے تو ایسے لوگ ہی فاسق ہیں۔»
اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ دین کے غلبے کے ماحول میں بھی جو شخص کفر کرے گا تو اس کے اندر گویا خیر کا مادہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ باطل کے غلبے میں کسی شخص کا ایمان لانا، اس پر قائم رہنا اور اس کے مطابق عمل کرنا انتہائی مشکل ہے، لیکن جب دین غالب ہو جائے اور ساری رکاوٹیں دور ہو جائیں تو اس کے بعد صرف وہی شخص دین سے دور رہے گا جس کی فطرت ہی بنیادی طور پر مسخ ہو چکی ہے۔
ان دو مفاہیم کے علاوہ میرے نزدیک اس فقرے کا ایک تیسرا مفہوم بھی ہے اور اس مفہوم کے مطابق «بَعْدَ ذٰلِکَ» کے الفاظ کا تعلق مذکورہ تین وعدوں سے ہے، کہ جب اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ لازماً تمہیں خلافت سے نوازے گا، وہ لازماً تمہارے دین کو غالب کرے گا اور وہ لازماً تمہارے خوف کی کیفیت کو امن سے بدل دے گا تو اس کے بعد بھی جو شخص ِکمر ہمت نہ باندھے اور اقامت ِدین کی جدوجہد کے لیے اٹھ کھڑا نہ ہو تو اسے گویا ہمارے وعدوں پر یقین نہیں اور وہ عملی طور پر ہمارے ان احکام سے کفر کا مرتکب ہو رہا ہے!
یہ آیت ۶ ہجری میں نازل ہوئی اور اس کے نزول کے فوراً بعد ہی اس کے مصداق کا ظہور شروع ہو گیا۔ ۷ ہجری میں صلح حدیبیہ طے پاگئی جسے خود اللہ تعالیٰ نے حضور کے لیے «فتح ِمبین» قرار دیاـ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا : (الفتح)۔ صلح حدیبیہ کے فوراً بعد ۷ ہجری میں ہی خیبر فتح ہوا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے مالِ غنیمت عطا کیا۔ ۸ ہجری میں مکہ فتح ہو گیا۔ ۹ ہجری کو حج کے موقع پر mopping up operation کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے مطابق آئندہ کے لیے مسجد حرام کے اندر مشرکین کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ جزیرہ نمائے عرب کے تمام مشرکین کو میعادی معاہدوں کی صورت میں اختتامِ معاہدہ تک اور عمومی طور پر چارہ ماہ کی مہلت دے دی گئی، اور اس کے ساتھ ہی واضح حکم دے دیا گیا کہ اس مدتِ مہلت میں اگر وہ اسلام قبول نہیں کریں گے تو سب کے سب قتل کردیے جائیں گے۔ یوں ۱۰ ہجری تک جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کا دین غالب ہو گیا، اللہ کی حکومت قائم ہو گئی اور حضرت داؤد کی طرح محمد ٌ رسول اللہ بھی اللہ کے خلیفہ بن گئے۔
حضور کے بعد خلافت راشدہ قائم ہوئی اور پھر اس کے بعد رفتہ رفتہ حالات میں بگاڑ آنا شروع ہو گیا جو مسلسل جاری ہے۔ سورۃ الانبیاء کے آخری رکوع کے مطالعہ کے دوران میں نے حضرت نعمان بن بشیر سے مروی ایک حدیث بیان کی تھی جس میں اُمت مسلمہ کے قیامت تک کے حالات کی واضح تفصیل ملتی ہے۔ زیرمطالعہ آیت کے مضمون کے سیاق و سباق میں آپ کا یہ فرمان بہت اہم ہے، لہٰذا ہم اس کا ایک بار پھرمطالعہ کر لیتے ہیں۔ حضور نے فرمایا: ((تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ تَـکُوْنَ)) «تمہارے درمیان نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ وہ رہے»۔ یعنی جب تک اللہ چاہے گا میں بنفس نفیس تمہارے درمیان موجود رہوں گا۔ ((ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّـرْفَعَھَا)) «پھر اللہ اس کو اٹھا لے گا جب اسے اٹھانا چاہے گا»۔ یعنی جب اللہ چاہے گا میرا انتقال ہو جائے گا اور یوں یہ دور ختم ہو جائے گا۔ ((ثُمَّ تَـکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ)) «پھر خلافت ہو گی نبوت کے نقش قدم پر»۔ یعنی میرے قائم کردہ نظام کے مطابق خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے ذریعے یہ نظام ایک بال کے فرق کے بغیر جوں کا توں قائم رہے گا۔ ((فَتَـکُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ تَـکُوْنَ)) «پھر یہ دور بھی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا کہ رہے»۔ ((ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ یَّرْفَعَھَا)) «پھر اس دَور کو بھی اللہ اٹھا لے گا جب اٹھانا چاہے گا»۔ ((ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا)) «پھر کاٹ کھانے والی ظالم ملوکیت ہو گی»۔ ((فَـیَکُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ یَکُوْنَ)) «پس یہ دور بھی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا» ((ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا)) «پھر اس کو بھی اللہ اٹھا لے گا جب اٹھانا چاہے گا»۔ ((ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً))«پھر غلامی کی ملوکیت کا دور آئے گا»۔ یہ چوتھا دور ہمارا دور ہے۔ تیسرے دور کی ملوکیت میں سب کے سب حکمران (بنو امیہ، بنو عباس اورترک بادشاہ ) مسلمان تھے۔ ان میں اچھے بھی تھے اور بُرے بھی مگر سب کلمہ گو تھے، جبکہ چوتھے دور کی ملوکیت میں مختلف مسلمان ممالک غیر مسلموں کے غلام ہو گئے۔ کہیں مسلمان تاجِ برطانیہ کی رعایا بن گئے، کہیں ولندیزیوں کے تسلط میں آ گئے اور کہیں فرانسیسیوں کے غلام بن گئے۔ اس طرح پورا عالم اسلام غیر مسلموں کے زیر تسلط آ گیا۔
اکیسویں صدی کا موجودہ دور عالم اسلام کے لیے «مُلْکاً جَبْرِیًّا» کا ہی تسلسل ہے۔ اگرچہ مسلم ممالک پر سے غیر ملکی قبضہ بظاہر ختم ہو چکا ہے اور ان ممالک پر قابض اقوام کی براہِ راست حکومتوں کی بساط لپیٹ دی گئی ہے لیکن عملی طور پر یہ تمام ممالک اب بھی ان کے قبضے میں ہیں۔ استعماری قوتیں آج بھی ریموٹ کنٹرول اقتدار کے ذریعے ان ممالک کے معاملات سنبھالے ہوئے ہیں۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، اور دوسرے بہت سے ادارے ان کے مہروں کے طور پر کام کر رہے ہیں اور یوں وہ اپنے مالیاتی استعمار کو اب بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔
اس کے بعدحضور نے فرمایا کہ یہ چوتھا دور بھی ختم ہو جائے گا : ((ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا)) «پھر اللہ اسے بھی اٹھا لے گا جب اٹھانا چاہے گا»۔ اور پھر اُمت کو ایک بہت بڑی خوشخبری دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: ((ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃِ)) «اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دور آئے گا»۔ یہ خوشخبری سنانے کے بعد راوی کہتے ہیں : ثُمَّ سَکَتَ «پھر رسول اللہ خاموش ہو گئے»۔ آپ شاید اس لیے خاموش ہو گئے کہ اس کے بعد دنیا کے خاتمے کا معاملہ تھا۔
اس کے علاوہ ہم حضرت ثوبان سے مروی یہ حدیث بھی پڑھ آئے ہیں جس میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام تمام روئے ارضی کے لیے ہو گا۔ حضرت ثوبان (حضور کے آزاد کردہ غلام) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ((اِنَّ اللّٰہَ زَوٰی لِيَ الْاَرْضَ)) «اللہ نے میرے لیے تمام زمین کو لپیٹ دیا۔» ((فَرَاَیْتُ مَشَارِقَھَا وَمَغَارِبَھَا)) «تو میں نے اس کے سارے مشرق اور مغرب دیکھ لیے۔» ((وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِيَ لِیْ مِنْھَا)) «اور میری اُمت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہو گی جو مجھے دکھائے گئے۔»
اسی طرح ہم نے حضرت مقدادبن اسود سے مروی اس حدیث کا مطالعہ بھی کیا تھا جس میں حضور نے فرمایا : «روئے ارضی پر کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر اور کوئی کمبلوں کا بنا ہوا خیمہ ایسا نہیں رہے گا جس میں دین اسلام داخل نہ ہو جائے، خواہ کسی عزت والے کے اعزاز کے ساتھ خواہ کسی مغلوب کی مغلوبیت کی صورت میں»۔ یعنی یا تو اس گھر والا اسلام قبول کر کے اعزاز حاصل کر لے گا یا پھر اسے ذلت کے ساتھ اسلام کی بالا دستی قبول کرنا پڑے گی۔ دین کے غلبے کی صورت میں غیر مسلم رعایا کے لیے یہ وہ اصول ہے جو سورۃ التوبہ میں اس طرح بیان ہوا: حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ: یعنی وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔
آنے والے اس دور کے بارے میں رسول اللہ کے ان فرمودات کے ساتھ ساتھ اس معاملے کو منطقی طور پر یوں بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید میں تین مقامات (التوبہ: ۳۳، الفتح: ۲۸اور الصف: ۹) پر واضح الفاظ میں اعلان فرما دیا گیا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ: «وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق دے کر تا کہ غالب کرد ے اسے کل کے کل دین (نظامِ زندگی) پر»۔ اس کے علاوہ قرآن حکیم میں پانچ مرتبہ حضور کی بعثت کے بارے میں یہ بھی واضح فرما دیا گیا ہے کہ آپ کو پوری نوعِ انسانی کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اس مضمون میں سورۂ سبا کی یہ آیت بہت واضح اور نمایاں ہے: وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ: «ہم نے آپ کو پوری نوعِ انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے، لیکن اکثر لوگوں کا اس کا ادراک نہیں ہے»۔ سورۃ الانبیاء میں یہی مضمون ایک نئی شان سے اس طرح آیا ہے: وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ: «ہم نے تو آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے»۔ ان دونوں آیات کا مشترک مفہوم یہی ہے کہ حضور کی بعثت کا مقصد تب پورا ہو گا جب پورے عالمِ انسانیت پر اللہ کا دین غالب ہو گا۔ چنانچہ قیامت سے پہلے تمام روئے ارضی پر دین حق کا غلبہ ایک طے شدہ امر ہے۔