قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 61
وَإِذْ قُلْتُمْ يَامُوسَى لَنْ نَصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَا سَأَلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ
اور (وہ وقت بھی) جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ! ہم ایک ہی کھانے پر صبر نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا اپنے پر وردگار سے مانگئے کہ وہ ہمارے لئے کچھ وہ چیزیں پیدا کرے جو زمین اگایا کرتی ہے ۔ یعنی زمین کی ترکاریاں، اس کی ککڑیاں، اس کا گندم، اس کی دالیں اور اس کی پیاز ۔ موسیٰ نے کہا : ’’ جو (غذا) بہتر تھی کیا تم اس کو ایسی چیزوں سے بدلنا چاہتے ہو جو گھٹیا درجے کی ہیں ؟ (خیر!) ایک شہر میں جااترو تو وہاں تمہیں وہ چیزیں مل جائیں گی جو تم نے مانگی ہیں ۔ ‘‘ اور ان (یہودیوں) پر ذلت اور بیکسی کا ٹھپہ لگادیا گیا ۔ اور وہ اﷲ کا غضب لے کر لوٹے ۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ وہ اﷲکی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کر دیتے تھے ۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ بے حد زیادتیاں کرتے تھے
آیت 61: وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ: اور یاد کرو جب کہ تم نے کہا تھا: اے موسیٰ! ہم ایک ہی کھانے پر صبر نہیں کر سکتے ،
«من و سلویٰ» کھا کھا کر اب ہم اُکتا گئے ہیں۔
فَادْعُ لَــنَا رَبَّکَ: تو ذرا اپنے ربّ سے ہمارے لیے دعا کرو ،
یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُـنْبِتُ الْاَرْضُ: کہ نکالے ہمارے لیے اس سے کہ جو زمین اُگاتی ہے ،
یعنی زمین کی پیداوار میں سے ، نباتاتِ ارضی میں سے ہمیں رزق دیا جائے۔
مِنْ بَقْلِہَا: اُس کی ترکاریاں
وَقِثَّــآئِھَا: اور ککڑیاں
یہ لفظ کھیرے اور ککڑی وغیرہ سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
وَفُوْمِہَا: اور لہسن
«فُوم» کاایک ترجمہ گیہوں کیا گیا ہے ، لیکن میرے نزدیک زیادہ صحیح ترجمہ لہسن ہے۔ عربی میں اس کے لیے بالعموم لفظ ( ثُوم ) استعمال کیا جاتا ہے۔ لہسن کو فارسی میں توم اور پنجابی ، سرائیکی اور سندھی میں ( تھوم ) کہتے ہیں اور یہ فُوم اور ثُوم ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے ، اس لیے کہ عربوں کی آمد کے باعث اُن کی زبان کے بہت سے الفاظ سندھی اور سرائیکی زبان میں شامل ہو گئے ، جو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کافی تعداد میں اب بھی موجود ہیں۔
وَعَدَسِہَا: اور مسور
وَبَصَلِہَا: اور پیاز۔
اب جو سالن کے چٹخارے اِن چیزوں سے بنتے ہیں اُن کی زبانیں وہ چٹخارے مانگ رہی تھیں۔ بنی اسرائیل صحرائے سینا میں ایک ہی طرح کی غذا ( مَنّ و سلویٰ ) کھاتے کھاتے اُکتا گئے تھے ، لہٰذا وہ حضرت موسیٰ سے کہنے لگے کہ ہمیں زمین سے اُگنے والی چٹخارے دار چیزیں چاہئیں۔
قَالَ اَتَسْتَـبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ہُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ: حضرت موسیٰ نے فرمایا: کیا تم وہ شے لینا چاہتے ہو جو کم تر ہے اُس کے بدلے میں جوبہتر ہے ؟
«مَن و سلویٰ» نباتاتِ ارضی سے کہیں بہتر ہے جو اللہ کی طرف سے تمہیں دیا گیا ہے۔ تو اس سے تمہارا جی بھر گیا ہے اور اس کو ہاتھ سے دے کر چاہتے ہو کہ یہ ادنیٰ چیزیں تمہیں ملیں؟
اِہْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَــکُمْ مَّا سَاَلْـتُمْ: اترو کسی شہر میں تو تم کو مل جائے گا جو کچھ تم مانگتے ہو۔
لفظ « اِہْبِطُوْا » پر آیت: 38 کے ذیل میں بات ہو چکی ہے کہ اس کا معنی بلندی سے اترنے کا ہے۔ ظاہر بات ہے یہاں یہ لفظ آسمان سے زمین پر اترنے کے لیے نہیں آیا ، بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہو گا کہ کسی بستی میں جا کر آباد ہو جاؤ! (settle down somewhere) اگر تمہیں زمین کی پیداوار میں سے یہ چیزیں چاہئیں تو کہیں آباد (settle) ہو جاؤ اور کاشت کاری کرو ، یہ ساری چیزیں تمہیں مل جائیں گی۔
وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّــۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ: اور ان پر ذلت ّو خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی۔
وَبَآؤُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ: اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے۔
وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔
بنی اسرائیل وہ اُمت تھی جس کے بارے میں فرمایا گیا: وَاَ نِّیْ فَضَّلْتُـکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ: (البقرۃ) اسی اُمت کا پھر یہ حشر ہوا تو کیوں ہوا؟ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے! انہیں کتاب دی گئی تھی کہ اس کی پیروی کریں اور اسے قائم کریں۔ سورۃ المائدۃ میں فرمایا گیا:
وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ: (آیت: 66)
«اگر یہ (اہل کتاب) تورات اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم کرتے جو اُن کی جانب ان کے ربّ کی طرف سے اتاری گئیں تو کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے قدموں کے نیچے سے»۔
یعنی ان کے سروں کے اوپر سے بھی نعمتوں کی بارش ہوتی اور زمین بھی ان کے لیے نعمتیں اُگلتی۔ لیکن انہوں نے اس کو چھوڑ کر اپنی خواہشات ، اپنے نظریات ، اپنے خیالات ، اپنی عقل اور اپنی مصلحتوں کو مقدم ّکیا ، اور اپنے تمرد ، اپنی سرکشی اور اپنی حاکمیت کو بالا تر کیا۔ جو قوم دنیا میں اللہ کے قانون ، اللہ کی ہدایت اور اللہ کی کتاب کی امین ہوتی ہے وہ اللہ کی نمائندہ (representative) ہوتی ہے ، اور اگر وہ اپنے عمل سے غلط نمائندگی (misrepresent) کرے تو وہ اللہ کے نزدیک کافروں سے بڑھ کر مغضوب اور مبغوض ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ کافروں کو دین پہنچانا تو اِس مسلمان اُمت کے ذمہ ّتھا۔ اگر یہ خود ہی دین سے منحرف ہو گئے تو کسی اور کو کیا دین پہنچائیں گے؟ آج اس مقام پر موجودہ اُمت ِمسلمہ کھڑی ہے کہ تعداد میں سوا ارب یا ڈیڑھ ارب ہونے کے باوجود ان کے حصے میں عزت نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ دُنیا کے سارے معاملات G-7 اور G-15 ممالک کے ہاتھ میں ہیں۔ سکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کو ویٹو کا حق حاصل ہے ، لیکن کوئی مسلمان ملک نہ تو سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے اور نہ ہی G-7 ، G-9 یا G-15 میں شامل ہے۔ گویا : کس نمی پُرسد کہ بھیا کیستی! ہماری اپنی پالیسیاں کہیں اور طے ہوتی ہیں ، ہمارے اپنے بجٹ کہیں اور بنتے ہیں ، ہماری صلح اورجنگ کسی اور کے اشارے سے ریموٹ کنٹرول انداز میں ہوتی ہیں۔ یہ ذلت اور مسکنت ہے جو آج ہم پر تھوپ دی گئی ہے۔ ہم کہتے ہیں کشمیر ہماری شہ رگ ہے ، لیکن اس کے لیے جنگ کرنے کو ہم تیار نہیں ہیں۔ یہ خوف نہیں ہے تو کیا ہے؟ یہ مسکنت نہیں ہے تو کیا ہے؟ اگر اللہ پر یقین ہے اور اپنے حق پر ہونے کا یقین ہے تو اپنی شہ رگ دشمن کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ہمت کرو۔ لیکن نہیں ، ہم میں یہ ہمت موجود نہیں ہے۔ ہمارے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خبریں آتی رہیں گی کہ قابض بھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کی کار روائیوں میں اتنے کشمیریوں کو شہید کر دیا ، اتنی مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کر دی ، لیکن ہم یہاں اپنے اپنے دھندوں میں ، اپنے اپنے کاروبار میں ، اپنی اپنی ملازمتوں میں اور اپنے اپنے کیریئرز میں مگن ہیں ۔ بہرحال متذکرہ بالا الفاظ اگرچہ بنی اسرائیل کے لیے آئے ہیں کہ ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی مسلط ّ کر دی گئی ، لیکن اس میں آج کی اُمت ِمسلمہ کا نقشہ بھی موجود ہے: ّ َ
خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں!
ذٰلِکَ بِاَنـَّــہُمْ کَانُـوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ: یہ اس لیے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہے ،
وَیَـقْتُلُوْنَ النَّبِيين بِغَیْرِ الْحَقِّ: اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے۔ ّ
ہمارے ہاں بھی مجددین ِاُمت کو قتل بھی کیا گیا اور اُن میں سے کتنے ہیں جو جیلوں میں ڈالے گئے۔ متعدد صحابہ کرام اور سینکڑوں تابعین مستبد حکمرانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ ائمۂ دین کو ایسی ایسی مار پڑی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کو بھی ایسی مار پڑے تو وہ برداشت نہ کر سکے۔ امام احمد بن حنبل کے ساتھ کیا کچھ ہوا! امام ابو حنیفہ نے جیل میں انتقال کیا اور وہاں سے اُن کا جنازہ اٹھا ۔ امامِ دار الہجرت امام مالک كے کندھے کھینچ دیے گئے اور ُمنہ کالا کر کے انہیں اُونٹ پر بٹھا کر پھرایا گیا۔ حضرت مجدد الف ِثانی شیخ احمد سرہندی کو پس دیوار زنداں ڈالا گیا۔ سید احمد بریلوی اور ان کے ساتھیوں کو خود مسلمانوں نے شہید کروا دیا۔ ہماری تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ اب نبی تو کوئی نہیں آئے گا۔ اُن کے ہاں نبی تھے ، ہمارے ہاں مجددین ہیں ، علماء حق ہیں۔ انہوںنے جو کچھ انبیاء کے ساتھ کیا وہی ہم نے مجددین کے ساتھ کیا ۔ ّ
ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ: اور یہ اس لیے ہوا کہ وہ نا فرمان تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔
ان کو یہ سزا اُن کی نا فرمانیوں کی وجہ سے اور حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے دی گئی۔ اللہ تعالیٰ تو ظالم نہیں ہے (نعوذ باللہ ) ، اللہ تعالیٰ نے تو انہیں اُونچا مقام دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی (خیر ِاُمت ) قرار دیا۔ ہم نے بھی جب اپنا مشن چھوڑ دیا تو ذلت اور مسکنت ہمارا مقدر بن گئی ۔ اللہ کا قانون اور اللہ کا عدل بے لاگ ہے۔ یہ سب کے لیے ایک ہے ، ہر اُمت کے لیے الگ الگ نہیں ہے۔ اللہ کی سنت بدلتی نہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی بد اعمالیوں کے سبب ان کا جو حشر ہوا آج وہ ہمارا ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں میری کتاب ( سابقہ اور موجودہ مسلمان اُمتوں کا ماضی ، حال اور مستقبل ) کے نام سے موجود ہے ، اُس کا مطالعہ کیجیے!