قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 40
يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ
اے بنی اسرائیل ! میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور تم مجھ سے کیا ہوا عہد پورا کرو تاکہ میں بھی تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں اور تم (کسی اور سے نہیں بلکہ) صرف مجھی سے ڈرو
آیت 40: یٰــبَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ: اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرے اُس انعام کو جو میں نے تم پر کیا
بنی اسرائیل کی ترکیب کو سمجھ لیجیے کہ یہ مرکب اضافی ہے۔ «اسر» کا معنی ہے بندہ یا غلام۔ اسی سے «اسیر» بنا ہے جو کسی کا قیدی ہوتا ہے۔ اور لفظ «ئیل» عبرانی میں اللہ کے لیے آتا ہے ۔ چنانچہ اسرائیل کا ترجمہ ہو گا «عبد اللہ» یعنی اللہ کا غلام ، اللہ کی اطاعت کے قلادے کے اندر بندھا ہوا۔ «اسرائیل» لقب ہے حضرت یعقوب کا۔ ان کے بارہ بیٹے تھے اور ان سے جو نسل چلی وہ بنی اسرائیل ہے۔ ان ہی میں حضرت موسیٰ کی بعثت ہوئی اور انہیں تورات دی گئی۔ پھر یہ ایک بہت بڑی اُمت بنے۔ قرآن مجید کے نزول کے وقت تک ان پر عروج و زوال کے چار ادوار آ چکے تھے۔ دو مرتبہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارشیں ہوئیں اور انہیں عروج نصیب ہوا ، جبکہ دو مرتبہ دنیا پرستی ، شہوت پرستی اور اللہ کے احکام کو پس ِپشت ڈال دینے کی سزا میں ان پر اللہ کے عذاب کے کوڑے برسے۔ اس کا ذکر سورئہ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں آئے گا۔ اُس وقت جبکہ قرآن نازل ہو رہا تھا وہ اپنے اس زوال کے دور میں تھے۔ حال یہ تھا کہ محمد رسول اللہ کی بعثت سے پہلے ہی ان کا
«معبد ِثانی» (Second Temple) بھی منہدم کیا جا چکا تھا۔ حضرت سلیمان نے جو ہیکل سلیمانی بنایا تھا جس کو یہ «معبد ِاوّل» (First Temple) کہتے ہیں ، اسے بخت نصر (Nebukadnezar) نے حضرت مسیح سے بھی چھ سو سال پہلے گرا دیا تھا۔ اسے انہوں نے دوبارہ تعمیر کیا تھا جو «معبد ِثانی» کہلاتا تھا۔ لیکن ۷۰ عیسوی میں محمد عربی کی ولادت سے پانچ سو سال پہلے رومیوں نے حملہ کر کے یروشلم کو تباہ و برباد کر دیا ، یہودیوں کا قتل ِعام کیا اور جو «معبد ِثانی» انہوں نے تعمیر کیا تھا اُسے بھی مسمار کر دیا ، جو اب تک گرا پڑا ہے ، صرف ایک دیوارِ گریہ (Veiling Wall) باقی ہے جس کے پاس جا کر یہودی ماتم اورگریہ وزاری کر لیتے ہیں ، اور اب وہ اسے سہ بارہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان کے «معبد ِثالث» (Third Temple) کے نقشے بن چکے ہیں ، اس کا ابتدائی خاکہ تیار ہو چکا ہے ۔ بہرحال جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا اُس وقت یہ بہت ہی پستی میں تھے۔ اس وقت ان سے فرمایاگیا: اے بنی اسرائیل! ذرا یاد کرو میرے اس انعام کو جو میں نے تم پر کیا تھا ۔ وہ انعام کیا ہے؟ میں نے تم کو اپنی کتاب دی ، نبوت سے سرفراز فرمایا ، اپنی شریعت تمہیں عطا فرمائی۔ تمہارے اندر داؤد اور سلیمان eجیسے بادشاہ اٹھائے ، جو بادشاہ بھی تھے ، نبی بھی تھے۔
وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْٓ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ: اور تم میرے وعدے کو پورا کرو تاکہ میں بھی تمہارے وعدے کو پورا کروں۔
بنی اسرائیل سے نبی آخر الزماں حضرت محمد پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا تھا۔ تورات میں کتابِ استثناء یا سفر ِاستثناء (Deuteronomy) کے اٹھارہویں باب کی آیات: ۱۸۔ ۱۹ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے خطاب کر کے یہ الفاظ فرمائے:
میں اُن کے لیے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا ،نہ سنے تو میں اُن کا حساب اُس سے لوں گا۔
یہ گویا حضرت موسیٰ کی اُمت کو بتایا جا رہا تھا کہ نبی آخر الزماں آئیں گے اور تمہیں ان کی نبوت کو تسلیم کرنا ہے۔ قرآن مجید میں اس کا تفصیلی ذکر سورۃ الاعراف میں آئے گا۔ یہاں فرمایا کہ تم میرا عہد پورا کرو ، میرے اس نبی کو تسلیم کرو ، اُس پر ایمان لاؤ، اس کی صدا پر لبیک کہو تو میرے انعام واکرام مزید بڑھتے چلے جائیں گے۔
وَاِیَّایَ فَارْہَبُوْنِ: اور صرف مجھ ہی سے ڈرو۔