April 30, 2025

قرآن کریم > البقرة >Surah 2 Ayat 4

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ

 اور جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں 

آیت4:    وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَـیْکَ: اورجو ایمان رکھتے ہیں اُس پر بھی جو (اے نبی) آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے

            وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ:  اور اُس پر بھی (ایمان رکھتے ہیں) جو آپ  سے پہلے نازل کیا گیا

            یہ بہت اہم الفاظ ہیں۔ عام طور پر آج کل ہمارے ہاں یہ خیال پھیلا ہوا ہے کہ سابقہ آسمانی کتب تورات اور انجیل وغیرہ کے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں‘ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ’’کوئی ضرورت نہیں‘‘ کی حد تک تو شاید بات صحیح ہو‘ لیکن ’’کوئی فائدہ نہیں‘‘ والی بات بالکل غلط ہے۔ دیکھئے قرآن کے آغاز ہی میں کس قدر اہتمام کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ ایمان صرف قرآن پر ہی نہیں‘ اس پر بھی ضروری ہے جو اس سے پہلے نازل کیا گیا۔ سورۃ النساء کوئی چھ ہجری میں جا کر نازل ہوئی ہے‘ اور اس کی آیت 134 کے الفاظ ملاحظہ کیجیے:

یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول (محمد) پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔‘‘

چنانچہ تورات ‘ انجیل‘ زبور اور ُصحف ِابراہیم  پر اجمالی ایمان کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ البتہ چونکہ ہم سمجھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ ان کتابوں میں تحریف ہو گئی ہے لہٰذا اِن کتابوں کی کوئی شے قرآن پر حجت نہیں ہو گی۔ جو چیز قرآن سے ٹکرائے گی ہم اس کو ردّ کر دیں گے اور ان کتابوں کی کسی شے کو دلیل کے طور پر نہیں لائیں گے۔ لیکن جہاں قرآن مجید کی کسی بات کی نفی نہ ہو رہی ہو وہاں ان سے استفادہ میں کوئی حرج نہیں۔ بہت سے حقائق ایسے ہیں جو ہمیں ان کتابوں ہی سے ملتے ہیں۔ مثلاً انبیاء کے درمیان زمانی ترتیب (Chronological Order) ہمیں تورات سے ملتی ہے‘ جو قرآن میں نہیں ہے۔ قرآن میں کبھی حضرت نوح  کا ذکر بعد میں اور حضرت موسیٰ   کا پہلے آ جاتا ہے۔ یہاں تو کسی اور پہلو سے ترتیب آتی ہے‘ لیکن تورات میں ہمیں حضراتِ ابراہیم‘ اسحاق‘ یعقوب‘ انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ اور عیسیٰ (علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام) کی تاریخ ملتی ہے۔ اس اعتبار سے سابقہ کتب سماویہ کی اہمیت پیش نظر رہنی چاہیے۔

            وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ: اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں۔

            یہاں نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ باقی سب چیزوں کے لیے تو لفظ ایمان آیا ہے جبکہ آخرت کے لیے ’’ایقان‘‘ آیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کے عمل کے اعتبار سے سب سے زیادہ مؤثر ّشے ایمان بالآخرۃ ہے۔ اگر انسان کو یہ یقین ہے کہ آخرت کی زندگی میں مجھے اللہ کے حضور حاضر ہوکر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو اس کا عمل صحیح ہو گا۔ لیکن اگر اس یقین میں کمی واقع ہو گئی تو توحید بھی محض ایک عقیدہ (Dogma) بن کر رہ جائے گی اور ایمان بالرسالت بھی بدعات کو جنم دے گا۔ پھر ایمان بالرسالت کے مظاہر یہ رہ جائیں گے کہ بس عید میلاد النبی منا لیجیے اور نعتیہ اشعار کہہ دیجیے‘ اللہ اللہ خیر صلا۔ انسان کا عمل توآخرت کے یقین کے ساتھ درست ہوتا ہے۔ ّ

وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ:  کے الفاظ میں یہ مفہوم بھی ہے کہ ’’آخرت پر انہی کا یقین ہے‘‘۔ یہاں گویا حصر بھی ہے۔ اس اعتبار سے کہ یہودی بھی ّمدعی تھے کہ ہم آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں تضاد (contrast) دکھایا جا رہا ہے کہ آخرت پر یقین رکھنے والے تو یہ لوگ ہیں! تاویل خاص کے اعتبار سے یہ کہا جائے گا کہ یہ لوگ تمہاری نگاہوں کے سامنے موجود ہیں جو محمد رسول اللہ  کی تیرہ برس کی کمائی ہیں۔ جو انقلابِ نبوی کے اساسی منہاج یعنی تلاوتِ آیات‘ تزکیہ اور تعلیم  کتاب وحکمت کا نتیجہ ہیں۔

UP
X
<>