July 18, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 37

فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

پھر آدم نے اپنے پروردگارسے (توبہ کے) کچھ الفاظ سیکھ لئے (جن کے ذریعے انہوں نے توبہ مانگی) چنانچہ اﷲ نے ان کی توبہ قبول کر لی ۔ بے شک وہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے

 آیت 37:    فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ:  پھر سیکھ لیے آدم  نے اپنے ربّ سے چند کلمات، تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کر لی۔   

             اس کی وضاحت سورۃ الاعراف میں ہے۔  جب حضرت آدم    نے اللہ تعالیٰ کا حکم ِعتاب آمیز سنا اور جنت سے باہر آ گئے تو سخت پشیمانی اور ندامت پیدا ہوئی کہ یہ میں نے کیا کیا ، مجھ سے کیسی خطا سرزد ہو گئی کہ میں نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کر ڈالی۔  لیکن ان کے پاس توبہ و استغفار کے لیے الفاظ نہیں تھے ۔  وہ نہیں جانتے تھے کہ کن الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں۔  اللہ کی رحمت یہ ہوئی کہ اُس نے الفاظ انہیں خود تلقین فرما دیے۔  یہ اللہ کی شانِ رحیمی ہے۔  توبہ کی اصل حقیقت انسان کے اندر گناہ پر ندامت کا پیدا ہو جانا ہے۔  اقبال نے عنفوانِ شباب میں جو اشعار کہے تھے ان میں سے ایک شعر کو سن کر اُس وقت کے اساتذہ بھی پھڑک اُٹھے تھے 

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے

قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے

یعنی شرمندگی کے باعث میری پیشانی پر پسینے کے جو قطرے نمودار ہو گئے میرے پروردگار کو وہ اتنے عزیز ہوئے کہ اُس نے انہیں موتیوں کی طرح چن لیا۔ حضرات آدم و حوا  کو جب اپنی غلطی پر ندامت ہوئی تو وہ گریہ و زاری میں مشغول ہو گئے۔  اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انہیں چند کلمات اِلقا فرمائے جن سے ان کی توبہ قبول ہوئی۔  وہ کلمات سورۃ الاعراف میں بیان ہوئے ہیں: رَبَّـنَا ظَلَمْنَــآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ: «اے ہمارے ربّ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ، اور اگر تو نے ہمیں بخش نہ دیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں ہو جائیں گے»۔  تباہ و برباد ہو جائیں گے۔

            اس مقام پر شیطنت اور آدمیت کا فوری تقابل موجود ہے۔  غلطی ابلیس سے بھی ہوئی ، اللہ کے حکم سے سرتابی ہوئی ، لیکن اُسے اس پر ندامت نہیں ہوئی بلکہ وہ تکبر کی بنا پر مزید اکڑ گیا کہ  «اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ» اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا۔ دوسری طرف غلطی آدم سے بھی ہوئی ، نافرمانی ہوئی ، لیکن وہ اس پر پشیمان ہوئے اور توبہ کی۔  وہ طرزِعمل شیطنت ہے اور یہ آدمیت ہے۔  ورنہ کوئی انسان گناہ سے اور معصیت سے مبرا ّنہیں ہے۔  رسول اللہ  کی ایک حدیث ہے:

((کُلُّ بَـنِیْ آدَمَ خَطَّائٌ وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ))

 آدم   کی تمام اولاد خطا کار ہے ، اور اِن خطا کاروں میں بہتر وہ ہیں جو توبہ کر لیں۔  

حضرت آدم  سے غلطی ہوئی۔  انہیں اس پر ندامت ہوئی ، انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔

             اِنَّـہ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ:  یقینا وہی تو ہے توبہ کا بہت قبول کرنے والا ، بہت رحم فرمانے  والا۔  ) 

            توبہ کا لفظ دونوں طرف سے آتا ہے۔  بندہ بھی  توّاب ہے۔  ازروئے الفاظ قرآنی :  اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ: (البقرۃ)  جبکہ توّاب اللہ تعالیٰ بھی ہے۔  اس کی اصل حقیقت سمجھ لیجیے:  بندے نے خطا کی اور اللہ سے دور ہو گیا تو اللہ نے اپنی رحمت کی نگاہ اُس سے پھیر لی ۔  بندے نے توبہ کی تو اللہ پھر اپنی رحمت کے ساتھ اُس کی طرف متوجہ ّہو گیا۔  توبہ کے معنی ہیں پلٹنا۔  بندہ معصیت سے توبہ کر کے اپنی اصلاح کی طرف ، بندگی کی طرف ، اطاعت کی طرف پلٹ آیا ، اور اللہ نے جو اپنی نظر ِرحمت بندے سے پھیر لی تھی ، پھر اپنی شانِ غفاری اور رحیمی کے ساتھ بندے کی طرف توجہ فرمالی۔ اس کے لیے حدیث میں الفاظ آتے ہیں :

((… وَاِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا، وَاِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا، وَاِنْ اَتَانِیْ یَمْشِیْ اَتَیْتُہ ھَرْوَلَۃً))

 …«اور اگر وہ (میرا بندہ) بالشت بھر میری طرف آتا ہے تو میں ہاتھ بھر اُس کی طرف آتا ہوں ، اور اگر وہ ہاتھ بھر میری طرف آتا ہے تو میں دو ہاتھ اُس کی طرف آتاہوں ، اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف آتا ہوں»۔  

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے راہ رَوِ منزل ہی نہیں!

وہ تو توّاب ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ  تَابَ بندے کے لیے آئے گا تو  اِلٰی کے صلہ کے ساتھ آئے گا۔  جیسے  اِنِّیْ تُـبْتُ اِلَــیْکَ: اور جب اللہ کے لیے آئے گا تو «عَلٰی» کے صلہ کے ساتھ  تَابَ عَلٰی آئے گا ، جیسے آیت زیر مطالعہ میں آیا:   فَتَابَ عَلَیْہِ.  اللہ کی شان بہت بلند ہے۔  انسان توبہ کرتا ہے تو اُس کی طرف توبہ کرتا ہے ، جبکہ اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ بندے پر توبہ کرتا ہے۔ 

UP
X
<>