قرآن کریم > البقرة >Surah 2 Ayat 2
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ
یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے
آیت 2: ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ: ’’یہ الکتاب ہے‘ اس میں کچھ شک نہیں‘‘۔ یا ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔‘‘
آیت کے اس ٹکڑے کے دو ترجمے ہو سکتے ہیں۔ پہلے ترجمے کی رو سے یہ ہے وہ کتابِ موعود جس کی خبر دی گئی تھی کہ نبی آخر الزماں آئیں گے اور اُن کوہم ایک کتاب دیں گے۔ یہ گویا حوالہ ہے محمد رسول اللہ کے بارے میں پیشین گوئیوں کی طرف کہ جو تورات میں موجود تھیں۔ آج بھی ’’کتاب مقدس‘‘ کی کتابِ استثناء (Deuteronomy) کے اٹھارہویں باب کی اٹھارہویں آیت کے اندر یہ الفاظ موجود ہیں کہ :’’میں ان (بنی اسرائیل) کے لیے ان کے بھائیوں (بنی اسماعیل) میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے مُنہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ اُن سے کہے گا‘‘۔ تو یہ بائبل میں حضرت محمد کی پیشین گوئیاں تھیں۔ آگے چل کر سورۃ الاعراف میں ہم اسے تفصیل سے پڑھ بھی لیں گے۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ یہی وہ کتابِ موعود ہے کہ جو نازل کر دی گئی ہے محمد رسول اللہ پر۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیںہے۔ اس میں ہر شے اپنی جگہ پر یقینی ہے‘ حتمی ہے‘ اٹل ہے‘ اور یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو یہ دعویٰ لے کر اٹھی ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ جو کتابیں آسمانی کہلائی جاتی ہیں اُن کے اندر بھی یہ دعویٰ کہیں موجود نہیں ہے‘ انسانی کتابوں میں تو اس کا سوال ہی نہیں ہے۔ علامہ اقبال جیسے نابغہ عصر فلسفی بھی اپنے لیکچرز کی تمہید میں لکھتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ سب صحیح ہے‘ ہو سکتا ہے جیسے جیسے علم آگے بڑھے مزید نئی باتیں سامنے آئیں۔ لیکن قرآن کا دعویٰ ہے کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ ’’اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے‘‘۔ پہلے ترجمہ کی رو سے ’’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ‘‘ ایک جملہ مکمل ہو گیا اور ’’ لَا رَیْبَ فِیْہِ‘‘ دوسرا جملہ ہے۔ جبکہ دوسرے ترجمہ کی رو سے ’’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ‘‘ مکمل جملہ ہے۔ یعنی ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ: ’’ ہدایت ہے پرہیز گار لوگوں کے لیے۔‘‘
یعنی ان لوگوں کے لیے جو بچنا چاہیں۔ تقویٰ کا لفظی معنی ہے بچنا۔ ’’وَقٰی۔ یَـقِي‘‘ کا مفہوم ہے ’’کسی کو بچانا‘‘ جب کہ تقویٰ کا معنی ہے خود بچنا۔ یعنی کج روی سے بچنا ‘ غلط روی سے بچنا اور افراط و تفریط کے دھکوں سے بچنا۔ جن لوگوں کے اندر فطرتِ سلیمہ ہوتی ہے اُن کے اندر یہ اخلاقی حِس موجود ہوتی ہے کہ وہ بھلائی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ہر ُبری چیز سے بچنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو قرآن مجید کے اصل مخاطبین ہیں۔ گویا جس کے اندر بھی بچنے کی خواہش ہے اس کے لیے یہ کتاب ہدایت ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں ہماری فطرت کی ترجمانی کی گئی تھی اور ہم سے یہ کہلوایا گیا تھا: اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ’’(اے پروردگار!) ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت بخش‘‘۔ آیت زیر مطالعہ گویا اس کا جواب ہے: {ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ} لو وہ کتاب موجود ہے کہ جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ ان تمام لوگوں کے لیے ہدایت کے تقاضوں کے اعتبار سے کفایت کرتی ہے جن میں غلط روی سے بچنے کی خواہش موجودہے۔
وہ لوگ کون ہیں؟ اب یہاں دیکھئے تاویل خاص کا معاملہ آ جائے گا کہ اُس وقت رسول اللہ کی تیرہ برس کی محنت کے نتیجہ میں مہاجرین و انصار کی ایک جماعت وجود میں آ گئی تھی‘ جس میں حضراتِ ابوبکر‘عمر‘عثمان‘ علی‘طلحہ‘زبیر‘سعد بن عبادہ اور سعد ابن معاذjجیسے نفوسِ قدسیہ شامل تھے۔ تو گویا اشارہ کر کے دکھایا جا رہا ہے کہ دیکھو یہ وہ لوگ ہیں‘ دیکھ لو اِن میں کیا اوصاف ہیں۔