July 18, 2025

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 90

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ 

بیشک اﷲ انصاف کا، احسان کا، اور رشتہ داروں کو (ان کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتاہے، تاکہ تم نصیحت قبول کرو

 آیت ۹۰:  اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِٔ ذِی الْقُرْبٰى:  «یقینا اللہ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور قرابت داروں کو (ان کے حقوق) ادا کرنے کا»

             وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ:  «اور وہ روکتا ہے بے حیائی، برائی اور سرکشی سے۔»

             یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ:  « وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم سبق حاصل کرو۔»

            یہ آیت اس لحاظ سے بہت مشہور ہے کہ اکثر جمعۃ المبارک کے خطبات میں شامل کی جاتی ہے۔ یہ بہت ہی جامع آیت ہے اور اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے انداز میں تین چیزوں کا حکم دیا گیا ہے اور تین ہی چیزوں سے منع کیا گیا ہے۔ پہلا حکم عدل کا ہے اور دوسرا احسان کا۔ عدل تو یہ ہے کہ جس کا جس قدر حق ہے عین اسی قدر آپ اسے دے دیں، لیکن احسان ایک ایسا عمل ہے جوعدل سے بہت اعلیٰ وارفع ہے۔ یعنی احسان یہ ہے کہ آپ کسی کو اس کے حق سے زیادہ دیں اور یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ چنانچہ اللہ محسنین کو محبوب رکھتا ہے۔ تیسرا حکم قرابت داروں کے حقوق کا خیال رکھنے کے بارے میں ہے، یعنی ان سے حسن سلوک سے پیش آنا، صلہ رحمی کے تقاضے پورے کرنا اور انفاقِ مال کے سلسلے میں ان کو ترجیح دینا۔ یہ تین احکام اُن اعمال کے بارے میں ہیں جو ایک اچھے معاشرے کی بنیاد کا کام دیتے ہیں۔

            جن چیزوں سے یہاں منع فرمایا گیا ہے ان میں سب سے پہلے بے حیائی ہے۔ حیا گویا انسان اور ہر برے کام کے درمیان پردہ ہے۔ جب تک یہ پردہ قائم رہتا ہے انسان عملی طور پر برائی سے بچا رہتا ہے، اور جب یہ پردہ اُٹھ جاتا ہے تو پھر انسان بے شرم ہو کر آزاد ہو جاتا ہے۔ پھر وہ ع:  «بے حیا باش وہرچہ خواہی کن!» کا مصداق بن کر جو چاہے کرتا پھرتا ہے۔

            بے حیائی کے بعد منکر سے منع کیا گیا ہے۔ منکر ہر وہ کام ہے جس کے برے ہونے پر انسان کی فطرت گواہی دے۔ تیسرا نا پسندیدہ عمل یا جذبہ البغی یعنی سرکشی ہے۔ یہ سرکشی اگر اللہ کے خلاف ہو تو بغاوت ہے اور یوں کفر ہے، اور اگر یہ انسانوں کے خلاف ہو تواسے «عُدوان» کہا جاتا ہے یعنی ظلم اور زیادتی۔ بہر حال ان دونوں سطحوں پر یہ انتہائی نا پسندیدہ اور مذموم جذبہ ہے۔

            اگلی چند آیات مشکلات القرآن میں سے ہیں۔ ان کی تفسیر کے بارے میں بہت سی آراء ہیں جو سب کی سب یہاں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ میں یہاں صرف وہ رائے بیان کروں گا جس سے مجھے اتفاق ہے۔ میری رائے کے مطابق ان آیات میں روئے سخن اہل ِکتاب کی طرف ہے۔ مکی سورتوں میں اگرچہ اہل ِکتاب سے «یٰــبَنِی اِسْرَائِیل» یا «یٰــاَھل الکتاب» کے الفاظ سے براہِ راست خطاب نہیں کیا گیا، لیکن سورۃ الانعام اور اس کے بعد (مکی دور کے آخری سالوں میں) نازل ہونے والی سورتوں میں اہل کتاب کو بالواسطہ انداز میں مخاطب کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک محمد رسول اللہ کے دعوائے نبوت کے بارے میں خبریں مدینہ پہنچ چکی تھیں اوریہودِ مدینہ ان خبروں کو سن کر بہت متجسسانہ انداز میں مزید معلومات کی ٹوہ میں تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ تو نبی آخر الزماں کو پہچان بھی چکے تھے اور وہ اس انتظار میں تھے کہ مزید معلومات سے آپ کی نبوت کی تصدیق ہو جائے تو وہ آپ پر ایمان لے آئیں۔ دوسری طرف یہودِ مدینہ ہی میں سے کچھ لوگوں کے دلوں میں آپ کے خلاف حسد کی آگ بھی بھڑک چکی تھی۔ اس قسم کے لوگ آپ کی مخالفت کے لیے قریش ِمکہ سے مسلسل رابطے میں تھے اور آپ کی آزمائش کے لیے قریش مکہ کو مختلف قسم کے سوالات بھیجتے رہتے تھے۔ ان سوالات میں ایک اہم سوال یہ بھی تھا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق تو فلسطین میں آباد تھے لیکن ان کی اولاد یعنی بنی اسرائیل کے لوگ وہاں سے مصر کیسے پہنچے؟ ان کا یہی سوال تھا جس کے جواب میں پوری سوره یوسف نازل ہوئی تھی۔ چنانچہ یہ وہ معروضی صورتِ حال تھی جس کی وجہ سے مکی دور کی آخری سورتوں میں کہیں کہیں اہل کتاب کا ذکر بھی موجود ہے اور بالواسطہ طور پر ان سے خطاب بھی ہے۔ اس پس منظر میں میری رائے یہی ہے کہ آئندہ آیات میں روئے سخن اہل کتاب کی طر ف ہے۔ 

UP
X
<>